Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کرایا، جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم اسے اپنی آیات دکھائیں، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک رات میں مسجد حرام سے سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ملا اعلیٰ کا سفر کرایا یہاں سے سورة الاسراء شروع ہو رہی ہے اسراء کا معنی ہے رات کو سفر کرانا اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنے حبیب ﷺ کو ایک رات میں مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی اس سورت کی پہلی آیت میں اس کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہ سورت سورة الاسراء کے نام سے معروف ہے۔ آیت مذکورہ میں اس بات کی تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی اور سورة النجم کی آیات (عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی اِِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی) میں اس کی تصریح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عالم بالا میں اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ آیت بالا میں چونکہ (اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ ) فرمایا ہے اور احادیث شریف میں مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر تشریف لے جانے کا بھی ذکر ہے اور اس تذکرہ میں ثم عرج بی فرمایا ہے اس لیے اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ آیت کریمہ کو لفظ (سُبْحٰنَ الَّذِیْ ) سے جو شروع فرمایا ہے اس میں ان کم فہموں کے خیال و گمان کی تردید ہے جو اس واقعہ محال اور ممتنع سمجھتے تھے اور اب بھی بعض جاہل ایسا خیال کرتے ہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ میں شک کرتے ہیں، ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شانہ کو سب کچھ قدرت ہے وہ کسی بھی چیز سے عاجز نہیں ہے وہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے وہ ہر نقص اور ہر عیب سے پاک ہے اس کی قدرت کاملہ سے کوئی چیز خارج نہیں۔ اور (اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ ) جو فرمایا اس میں رسول اللہ ﷺ کی شان عبدیت کو بیان فرمایا ہے۔ عبدیت بہت بڑا مقام ہے۔ اللہ کا بندہ ہونا بہت بڑی بات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ بنالیا اور یہ اعلان فرما دیا کہ وہ ہمارا بندہ ہے اس سے بڑا کوئی شرف نہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ احب الاسماء الی اللّٰہ عبد اللّٰہ و عبدالرحمن کہ اللہ کو سب سے زیادہ پیارے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 409 از شرح السنۃ) ایک مرتبہ ایک فرشتہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ آپ کے رب نے سلام فرمایا ہے اور فرمایا ہے اگر تم چاہو تو عبدیت والے نبی بن جاؤ اور اگر چاہو تو بادشاہت والے نبی بن جاؤ، آپ نے مشورہ لینے کے لیے جبرائیل کی طرف دیکھا انہوں نے تواضع اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ آپ نے جواب دیا کہ عبدیت والا نبی بن کر رہنا چاہتا ہوں، حضرت عائشہ ؓ (جو حدیث کی راویہ ہیں انہوں) نے بیان بیان کیا کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھاتے تھے آپ فرماتے تھے کہ میں ایسے کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے اور ایسے بیٹھتا ہوں جیسے بندہ بیٹھتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 521 از شرح السنۃ) اسراء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لفظ (عَبْدِہٖ ) لانے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ واقعہ کی تفصیل سن کر کسی کو یہ وہم نہ ہوجائے کہ آپ کی حیثیت عبدیت سے آگے بڑھ گئی، اور آپ کی شان میں کوئی ایسا اعتقاد نہ کرلے کہ مقام عبدیت سے آگے بڑھا کر اللہ تعالیٰ کی شان الوہیت میں شریک قرار دے دے، اور جیسے نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں غلو کرکے گمراہ ہوئے اس طرح کی کوئی گمراہی امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں نہ آجائے۔ قرآن مجید میں اس کی تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک رات میں مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، مسجد حرام اس مسجد کا نام ہے جو کعبہ شریف کے چاروں طرف ہے اور بعض مرتبہ حرم مکہ پر بھی اس کا اطلاق ہوا ہے (کما قال تعالیٰ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) اور مسجد اقصیٰ کو اقصیٰ کیوں کہا جاتا ہے اس کے بارے میں کئی قول ہیں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں چونکہ وہ حجاز میں رہنے والوں سے دور ہے اس لیے اس کی صفت اقصیٰ لائی گئی اور ایک قول یہ ہے کہ جن مساجد کی زیارت کی جاتی ہے ان میں وہ سب سے زیادہ دور ہے کوئی شخص مسجد حرام سے روانہ ہو تو پہلے مدینہ منورہ سے گزرے گا پھر بہت دن کے بعد مسجد اقصیٰ پہنچے گا (جب اونٹوں پر سفر ہوتے تھے تو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک آنے جانے کا تقریباً چالیس دن کا سفر تھا) اور ایک قول یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ اس لیے کہا گیا کہ وہ گندی اور خبیث چیزوں سے پاک ہے۔ (روح المعانی ص 9 ج 15) مسجد اقصیٰ کے بارے میں (الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ ) فرمایا یعنی جس کے چاروں طرف ہم نے برکت دی ہے، یہ برکت دینی اعتبار سے بھی ہے اور دنیاوی اعتبار سے بھی، دینی اعتبار سے تو یوں ہے کہ بیت المقدس حضرات انبیاء (علیہ السلام) کی عبادت گاہ ہے اور ان حضرات کا قبلہ رہا ہے اور وہ ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کے چاروں طرف حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) مدفون ہیں، اور دنیاوی اعتبار سے اس لیے بابرکت ہے کہ وہاں پر انہار اور اشجار بہت ہیں، (لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا) (تاکہ ہم اپنے بندہ کو اپنی آیات یعنی عجائب قدرت دکھائیں) ایک رات میں اتنا لمبا سفر ہوجاتا اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ملاقاتیں ہونا ان کی امامت کرنا اور راستہ میں بہت سی چیزیں دیکھنا یہ سب عجائب قدرت میں سے تھا۔ (اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ) (بلاشبہ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے) صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ السمیع فرما کر یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کا سننے والا ہے اور (الْبَصِیْرُ ) فرما کر یہ ظاہر فرما دیا کہ وہ سب کچھ دیکھنے والا ہے اور رات کی تاریکی میں حفاظت کرنے والا ہے۔ سورۃ الاسراء میں مسجد اقصیٰ تک سفر کرانے کا ذکر ہے اور احادیث شریفہ میں آسمانوں پر جانے بلکہ سدرۃ المنتہیٰ بلکہ اس سے بھی اوپر تک تشریف لے جانے کا ذکر ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان سے اوپر تک سیر کرائی پھر اسی رات میں واپس مکہ معظمہ پہنچا دیا اور یہ آنا جانا سب حالت بیداری میں تھا اور جسم اور روح دونوں کے ساتھ تھا۔ واقعہ معراج کا مفصل تذکرہ ہم پہلے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں، ہم نے پہلے صحیح مسلم کی روایت لی ہے کیونکہ اس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کا اور پھر عالم بالا میں تشریف لے جانے کا ذکر ہے صحیح بخاری کی کسی روایت میں ہمیں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کا ذکر نہیں ملا اس لیے بخاری کی روایت کو بعد میں ذکر کیا ہے۔ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس کا سفر کرنا اور وہاں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امامت کرنا صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس ایک براق لایا گیا جو لمبا سفید رنگ کا چوپایہ تھا اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی، میں اس پر سوار ہوا یہاں تک کہ میں بیت المقدس تک پہنچ گیا میں نے اس براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں پھر میں مسجد سے باہر آیا تو جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آئے میں نے دودھ کو لے لیا اس پر جبرائیل نے کہا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کرلیا، پھر ہمیں آسمان کی طرف لے جایا گیا اور پہلے آسمان میں حضرت آدم اور دوسرے آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ اور تیسرے آسمان پر حضرت یوسف اور چوتھے آسمان میں حضرت ادریس اور پانچویں آسمان میں حضرت ہارون اور چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور سب نے مرحبا کہا اور ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی ان کے بارے میں آپ نے بتایا کہ وہ البیت المعمور سے ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما تھے اور یہ بھی بتایا کہ البیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ لے جایا گیا، اچانک دیکھتا ہوں کہ اس کے پتے اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں، جب سدرۃ المنتہیٰ کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا اللہ کی کسی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کو سونے کے پروانوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ (مسلم ص 97 ج 1) اس وقت مجھ پر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا منظور تھا اور مجھ پر رات دن میں روزانہ پچاس نمازیں پڑھنا فرض کیا گیا میں واپس اترا اور موسیٰ (علیہ السلام) پر گزر ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ؟ میں نے کہا پچاس نمازیں فرض فرمائی ہیں، انہوں نے کہا کہ واپس جائیے اپنے رب سے تخفیف کا سوال کیجیے کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں، آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف واپس لوٹا اور عرض کیا کہ اے رب میری امت پر تخفیف فرما دیجیے چناچہ پانچ نمازیں کم فرما دیں میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا اور میں نے بتایا کہ پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی آپ اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے اور تخفیف کا سوال کیجیے آپ نے فرمایا کہ میں بار بار واپس ہوتا رہا (کبھی موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا کبھی بارگاہ الٰہی میں حاضری دیتا) یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد ﷺ یہ روزانہ دن رات میں پانچ نمازیں ہیں ہر نماز کے بدلہ دس نمازوں کا ثواب ملے گا لہٰذا یہ (ثواب میں) پچاس ہی ہیں، جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے گا پھر اسے نہ کرے گا تو اس کے لیے (محض ارادہ کی وجہ سے) ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور جس شخص نے ارادہ کرنے کے بعد عمل بھی کرلیا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور جس شخص نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو کچھ بھی نہ لکھا جائے گا اور اگر اپنے ارادے کے مطابق عمل کرلیا تو ایک گناہ لکھا جائے گا، آپ نے فرمایا کہ میں نیچے واپس آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا اور انہیں بات بتادی انہوں نے کہا کہ واپس جاؤ اپنے رب سے تخفیف کا سوال کرو میں نے کہا میں بار بار اپنے رب کی بارگاہ میں مراجعت کرتا رہا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے شرم آتی ہے۔ (ص 19 ج 1) صحیح مسلم (ص 96 ج 1) میں بروایت ابوہریرہ ؓ یہ بھی ہے کہ میں نے اپنے آپ کو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جماعت میں دیکھا، اسی اثناء میں نماز کا وقت ہوگیا تو میں نے ان کی امامت کی جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کسی کہنے والے نے کہا کہ اے محمد ﷺ یہ دوزخ کا داروغہ ہے اس کو سلام کیجیے میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے خود سلام کیا، (یہ بیت المقدس میں امامت فرمانا، آسمانوں پر تشریف لے جانے سے پہلے واقع ہوا۔ ) حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر ص 6 ج 3 میں حضرت انس بن مالک ؓ کی روایت جو بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کی ہے اس میں یوں ہے (ابھی بیت المقدس ہی میں تھے) کہ بہت سے لوگ جمع ہوئے پھر ایک اذان دینے والے نے اذان دی اس کے بعد ہم صفیں بنا کر کھڑے ہوگئے سب انتظار میں تھے کہ کون امام بنے گا، جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا دیا اور میں نے حاضرین کو نماز پڑھا دی جب میں نماز سے فارغ ہوا تو جبرائیل نے کہا اے محمد ﷺ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے پیچھے کن حضرات نے نماز پڑھی ہے، میں نے کہا نہیں (جن حضرات انبیاء ( علیہ السلام) سے پہلے ملاقات ہوچکی تھی ان کے علاوہ بھی بہت سے حضرات نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی تھی اور سب سے تعارف نہیں ہوا تھا اس لیے یوں فرما دیا کہ میں ان سب کو نہیں جانتا) حضرت جبرائیل نے کہا کہ جتنے بھی نبی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمائے ہیں ان سب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ہے (اس کے بعد آسمانوں پر جانے کا تذکرہ ہے۔ ) صحیح بخاری میں واقعہ معراج کی تفصیل صحیح بخاری میں واقعہ معراج بروایت حضرت انس بن مالک ؓ متعدد جگہ مروی ہے کہیں حضرت انس ؓ نے بواسطہ حضرت ابوذر ؓ اور کہیں بواسطہ حضرت مالک بن صعصعہ انصاری ؓ نقل کیا ہے (2) فی مجمع الزوائد ص 74 ج 1 فربطت الدابۃ بالحلقۃ التی تربط بھا الانبیاء ثم دخلنا المسجد فنشرت لی الانبیاء سمی اللّٰہ ومن لم یسم فصلیت بھم (دیکھو ص 150۔ 455۔ 471۔ 548 ج 1 (2) حضرت انس ؓ نے حضرت مالک بن صعصعہ ؓ کے واسطہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں کعبہ شریف کے قریب اس حالت میں تھا جیسے کچھ جاگ رہا ہوں کچھ سو رہا ہوں، میرے پاس تین آدمی آئے میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پر تھا میرا سینہ چاک کیا گیا پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا گیا پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اس کے بعد اس کو درست کردیا گیا اور میرے پاس ایک سفید چوپایہ لایا گیا وہ قد میں خچر سے کم تھا اور گدھے سے اونچا تھا یہ چوپایہ براق تھا۔ آسمان میں تشریف لے جانا اور آپ کے لیے دروازہ کھولا جانا حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ملاقات فرمانا اور ان کا مرحبا کہنا میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوا یہاں تک کہ قریب والے آسمان تک پہنچ گیا۔ حضرت جبرائیل نے آسمان کے خازن سے کہا کہ کھولیے اس نے سوال کیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے جبرائیل نے جواب دیا کہ محمد ﷺ ہیں اس نے دریافت کیا، کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ جبرائیل نے جواب دیا کہ ہاں انہیں بلایا گیا ہے ! اس پر مرحبا کہا گیا اور دروازہ کھول دیا گیا اور کہا گیا ان کا آنا بہت اچھا آنا ہے، ہم اوپر پہنچے تو وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) کو پایا میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا مرحبا بک من ابن و نبی بیٹے اور نبی کے لیے مرحبا، پھر ہم دوسرے آسمان تک پہنچے وہاں بھی جبرائیل سے اسی طرح کا سوال جواب ہوا جو پہلے آسمان میں داخل ہونے سے قبل کیا گیا تھا جب دروازہ کھول دیا گیا اور اوپر پہنچے تو وہاں عیسیٰ اور یحییٰ ( علیہ السلام) کو پایا انہوں نے بھی مرحبا کہا ان کے الفاظ یوں تھے۔ مرحبا بک من اخ و نبی (مرحبا ہو بھائی کے لیے اور نبی کے لیے) پھر ہم تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں جبرائیل سے وہی سوال ہوا جو پہلے آسمانوں میں داخل ہونے سے قبل ہوا تھا پھر دروازہ کھول دیا گیا تو ہم اوپر پہنچ گئے وہاں یوسف (علیہ السلام) کو پایا میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے مرحبا بک من اخ و نبی کہا پھر ہم چوتھے آسمان تک پہنچے وہاں بھی جبرائیل سے حسب سابق سوال جواب ہوا، دروازہ کھول دیا گیا تو ہم اوپر پہنچ گئے وہاں ادریس (علیہ السلام) کو پایا میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے بھی وہی کہا مرحبا بک من اخ و نبی پھر ہم پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں بھی جبرائیل سے حسب سابق سوال جواب ہوا۔ دروازہ کھول دیا گیا تو ہم اوپر پہنچے وہاں ہارون (علیہ السلام) کو پایا میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے بھی مرحبا بک من اخ و نبی کہا پھر ہم چھٹے آسمان تک پہنچے وہاں بھی حسب سابق حضرت جبرائیل سے وہی سوال جواب ہوئے، جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم اوپر پہنچ گئے وہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پایا میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے بھی مرحبا بک من اخ و نبی کہا جب میں آگے بڑھ گیا تو وہ رونے لگے ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے رونے کا سبب کیا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ ایک لڑکا میرے بعد مبعوث ہوا اس کی امت کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جو میری امت کے داخل ہونے والوں سے افضل ہوں گے (دوسری روایت میں ہے کہ اس کی امت کے جنت میں داخل ہونے والے میری امت سے زیادہ ہوں گے) پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں بھی جبرائیل (علیہ السلام) سے حسب سابق سوال جواب ہوا جب دروازہ کھل گیا تو ہم اوپر پہنچے وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پایا میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا مرحبا بک من ابن و نبی حضرت آدم اور حضرت ابراہیم نے مرحبا بک من ابن و نبی فرمایا کیونکہ آپ ان کی نسل میں سے تھے۔ باقی حضرات نے مرحبا بک من اخ و نبی فرمایا۔ البیت المعمور اور سدرۃ المنتہیٰ کا ملاحظہ فرمانا اس کے بعد ” البیت المعمور “ میرے سامنے کردیا گیا میں نے جبرائیل سے سوال کیا یہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ ” البیت المعمور “ ہے۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں جب نکل کر چلے جاتے ہیں تو کبھی بھی واپس نہیں ہوتے پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کو لایا گیا کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے بیر ہجر 1 کے مٹکوں کے برابر ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں۔ ” سدرۃ المنتہیٰ “ کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں دو باطنی نہریں 2 اور دو ظاہری نہریں میں نے جبرائیل سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق میں اور نیل مصر میں ہے) ۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے دادا تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کی جتنی بھی نسل چلی ہے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ بھی حضرت ادریس (علیہ السلام) کی اولاد میں ہوئے لہٰذا نہیں بھی مرحبا بک من ابن و نبی کہنا چاہیے تھا اگر اہل تاریخ کی یہ بات صحیح ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اخوت کا ذکر مناسب جانا کیونکہ حضرات انبیاء (علیہ السلام) عہدہ نبوت کے اعتبار سے بھائی بھائی ہیں اور تلطفاً و تادباً ابن کہنا مناسب نہ جانا۔ (کذافی حاشیہ البخاری ص 455 عن الکرمانی) پچاس نمازوں کا فرض ہونا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے توجہ دلانے پر بار بار درخواست کرنے پر پانچ نمازیں رہ جانا اس کے بعد مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس آیا حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گیا انہوں نے دریافت کیا (کہ اپنی امت کے لیے) آپ نے کیا کیا، میں نے کہا مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں بنی اسرائیل کے ساتھ میں نے بڑی محنت کی ہے (وہ لوگ مفروضہ نمازوں کا اہتمام نہ کرسکے) بلاشبہ آپ کی امت کو اتنی نمازیں پڑھنے کی طاقت نہ ہوگی، جائیے اپنے رب سے (تخفیف کا) سوال کیجیے میں واپس لوٹا اور اللہ جل شانہ سے تخفیف کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں باقی رکھیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر وہی بات کہی میں نے پھر اللہ تعالیٰ سے تخفیف کا سوال کیا تو تیس (30) نمازیں باقی رہ گئیں موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر توجہ دلائی تو تخفیف کا سوال کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیس (20) نمازیں کردی گئیں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی طرح کی بات کہی تو درخواست کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس نمازیں کردی گئیں میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی میرے درخواست کرنے پر اللہ تعالیٰ 1 عرب میں ہجر نام کی ایک بستی تھی جہاں کے بڑے بڑے مٹکے مشہور تھے۔ 2 دو نہریں جو اندر کو جا رہی تھیں یہ کوثر اور نہر رحمت معلوم ہوتی ہیں، کہ وہ دونوں سلسبیل کی شاخیں ہیں ممکن ہے کہ یہ سلسبیل اور اس کا وہ موقع جہاں سے کوثر و نہر رحمت کا اس سے انشعاب ہوا ہے یہ سب سدرۃ کی دوسری جڑ میں ہوں اور نیل و فرات کا آسمان پر ہونا اس طرح ممکن ہے کہ دنیا میں جو نیل و فرات ہیں ظاہر ہے کہ بارش کا پانی جذب ہو کر پتھر سے جاری ہوتا ہے اور بارش آسمان سے ہے سو جو حصہ بارش کا نیل و فرات کا مادہ ہے ممکن ہے کہ وہ آسمان سے آتا ہو پس اس طور پر نیل و فرات کی اصل آسمان پر ہوئی۔ (ذکرہ فی نشر الطیب وراجع تفسیر ابن کثیر ص 12 ج 3) نے پانچ نمازیں باقی رہنے دیں، موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی میں نے کہا کہ میں نے تسلیم کرلیا (اب درخواست نہیں کرتا) اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی کہ میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں کے لیے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کردیتا ہوں (لہٰذا ادا کرنے میں پانچ رہیں اور ثواب میں پچاس رہیں۔ ) یہ روایت صحیح بخاری میں ص 455 پر ہے اور صحیح بخاری میں ص 471 پر حضرت انس ؓ سے بواسطہ ابوذر ؓ جو معراج کا واقعہ نقل کیا ہے اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مرحبا کہنے کے تذکرہ کے بعد یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے جبرائیل اور اوپر لے کر چڑھے یہاں تک کہ میں ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں قلموں کے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں اس کے بعد پچاس نمازیں فرض ہونے اور اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے توجہ دلانے اور بارگاہ الٰہی میں بار بار سوال کرنے پر پانچ نمازیں باقی رہ جانے کا ذکر ہے اور اس کے اخیر میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ما لا یبدل القول لدی کہ میرے پاس بات نہیں بدلی جاتی (پچاس نمازیں فرض کردیں تو پچاس ہی کا ثواب ملے گا) اور سدرۃ المنتہیٰ کے بارے میں فرمایا کہ اسے ایسے رنگوں سے ڈھانپ رکھا تھا جنہیں میں نہیں جانتا پھر میں جنت میں داخل کردیا گیا وہاں دیکھتا ہوں کہ موتیوں کے گنبد ہیں اور اس کی مٹی خشک ہے۔ ص 548 ج 1 پر بھی حضرت امام بخاری ؓ نے حدیث معراج ذکر کی ہے وہاں بھی حضرت انس ؓ سے بتوسط حضرت مالک بن صعصعہ انصاری ؓ روایت کی ہے اس میں البیت المعمور کے ذکر کے بعد یوں ہے کہ پھر میرے پاس ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ اور ایک برتن میں شہد لایا گیا میں نے دودھ لے لیا جس پر جبرائیل نے کہا یہی وہ فطرت، یعنی دین اسلام ہے جس پر آپ ہیں اور آپ کی امت ہے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مزید تخفیف کرانے کے لیے کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا سالت ربی حتی استحییت ولکنی ارضی واسلم (میں نے اپنے رب سے یہاں تک سوال کیا کہ شرما گیا اب تو میں راضی ہوتا ہوں تسلیم کرتا ہوں) (انتھت روایۃ البخاری) نمازوں کے علاوہ دیگر دو انعام معراج کی رات میں جو نمازوں کا انعام ملا اور پانچ نمازیں پڑھنے پر بھی پچاس نمازوں کا ثواب دینے کا اللہ جل شانہ نے جو وعدہ فرمایا اس کے ساتھ یہ بھی انعام فرمایا کہ سورة بقرہ کی آخری آیات (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ ) سے لے کر آخر تک عنایت فرمائیں اور ساتھ ہی اس قانون کا بھی اعلان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے امتیوں کے بڑے بڑے گناہ بخش دئیے جائیں گے جو شرک نہ کرتے ہوں (مسلم ص 97 ج 1) مطلب یہ ہے کہ کبیرہ کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہ رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا ہوجائے گا (قالہ النووی) کافر اور مشرک ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ معراج میں دیدار الٰہی اس میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ ﷺ شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں اور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی یعنی سر کی آنکھوں سے دیکھا یا دل کی آنکھوں سے دیدار کیا۔ جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے پروردگار کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور محققین کے نزدیک یہی قول راجح اور حق ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ رؤیت کا انکار کرتی تھیں اور حضرت ابن عباس ؓ رؤیت کو ثابت کرتے تھے اور مانتے تھے جمہور علماء نے اسی قول کو ترجیح دی ہے علامہ نووی (رح) شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔ والاصل فی الباب حدیث ابن عباس حبر الامۃ والمرجوح الیہ فی المعضلات وقد راجعہ ابن عمر فی ھذہ المسئلۃ ھل رای محمد ﷺ بہ فاخبرہ انہ راہ ولا یقدح فی ھذا حدیث عائشۃ فان عائشۃ لم تخبر انھا سمعت النبی یقول لم ار ربی وانما ذکرت ما ذکرت متأولہ لقول اللّٰہ تعالیٰ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا ولقول اللّٰہ تعالیٰ لاَ تُدْرِکُہُ الْاَبْصَار و اصحابی اذا قال قولاً وخالفہ غیرہ منھم لم یکن قولہ حجۃ واذا صحت الروایات عن ابن عباس فی اثبات الرویۃ وجب المصیر الی اثباتھا فانھا لیست مما یدرک بالعقل ویوخذ بالظن وانما یتلقی بالسماع ولا یستجیز احد ان یظن بابن عباس ان تکلم فی ھذہ المسئلۃ بالظن والاجتھادہ قلت لم اجد التصریح من ابن عباس انہ رأی ربہ تعالیٰ بعینی راسہ وروی مسلم عنہ انہ راہ بقلبہ وفی روایۃ راٰہُ بفوادہ مرتین والعلم عند اللّٰہ العلیم۔ سورۃ النجم میں جو (ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی) اور (وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی) وارد ہے اس کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ان میں جبرائیل (علیہ السلام) کا دیکھنا مراد ہے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) انسانی صورت میں آیا کرتے تھے سدرۃ المنتہیٰ کے قریب آپ نے ان کو اصل صورت میں اس حالت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو (600) پر تھے انہوں نے افق کو بھر دیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بھی یہی فرماتے تھے کہ (فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی) اور (لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی) سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا قریب ہونا اور دیکھنا مراد ہے۔ (صحیح مسلم مع شرح الامام النووی ص 97۔ 98 ج 1) قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا بیت المقدس تک پہنچنا پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا اور مکہ معظمہ تک واپس آجانا ایک ہی رات میں ہوا واپس ہوتے ہوئے راستہ میں ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہوئی جو قریش کا قافلہ تھا اور وہ شام سے واپس آ رہا تھا صبح کو جب آپ نے معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس پہنچے ان سے کہا کہ محمد ﷺ بیان کر رہے ہیں کہ رات کو انہوں نے اس طرح سفر کیا پھر صبح ہونے سے پہلے واپس آگئے، حضرت ابوبکر نے اول تو یوں کہا تم لوگ جھوٹ بولتے ہو ان لوگوں نے قسم کھا کر کہا کہ واقعی وہ اپنے بارے میں یہ بیان دے رہے ہیں اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا اِنْ کَانَ قَالَہٗ فَقَدْ صَدَقَ کہ اگر انہوں نے یہ بیان کیا ہے تو سچ فرمایا ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمان سے آپ کے پاس خبر آتی ہے، اسی وجہ سے حضرت ابوبکر کا لقب صدیق پڑگیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ص 360 ج 2 البدایہ والنہایہ) اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے پیش فرما دیا قریش مکہ تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے بیت المقدس ان کا دیکھا ہوا تھا کہنے لگے اچھا اگر آپ رات بیت المقدس گئے تھے اس میں نماز پڑھی ہے تو بتائیے بیت المقدس میں فلاں فلاں چیز کیسی ہیں (یعنی اس کے ستون اور دروازوں اور دوسری چیزوں کے بارے میں سوال کرنا شروع کردیا) اس وقت آپ حطیم میں تشریف رکھتے تھے آپ نے فرمایا ان لوگوں کے سوال پر مجھے بڑی بےچینی ہوئی اس جیسی بےچینی کبھی نہیں ہوئی تھی میں نے بیت المقدس کو دیکھا تو تھا لیکن خوب اچھی طرح اس کی ہر ہر چیز کو محفوظ نہیں کیا (اس کا کیا اندازہ تھا کہ ان چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا) اللہ جل شانہ نے بیت المقدس کو میری طرف اس طرح اٹھا دیا کہ مجھ سے قریش مکہ جو بھی کچھ پوچھتے رہے میں ان سب کا جواب دیتا رہا۔ (صحیح مسلم ص 96 ج 1) بعض روایات میں یوں ہے فجلی اللّٰہ لی بیت المقدس فطفقت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ (اللہ نے بیت المقدس کو میرے لیے واضح طریقے پر روشن فرما دیا میں اسے دیکھتا رہا اور اس کی جو نشانیاں پوچھ رہے تھے وہ میں انہیں بتاتا رہا۔ ) (صحیح بخاری ص 548 ج 1) تفسیر ابن کثیر ص 15 ج 2 میں ہے کہ جب آپ نے بیت المقدس کی علامات سب بتادیں تو وہ لوگ جو آپ کی بات پر شک کرنے کی وجہ سے بیت المقدس کی نشانیاں دریافت کر رہے تھے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم بیت المقدس کے بارے میں صحیح بیان دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ کو یہ بھی بتایا کہ مجھے سفر میں فلاں وادی میں فلاں قبیلے کا قافلہ ملا تھا ان کا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا میں نے انہیں بتایا کہ تمہارا اونٹ فلاں جگہ پر ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بیت المقدس کی طرف جا رہا تھا پھر جب میں واپس آ رہا تھا تو مقام ضجنان میں پہنچا دیکھا کہ وہ لوگ سو رہے ہیں ایک برتن میں پانی تھا جسے انہوں نے کسی چیز سے ڈھانپ رکھا تھا میں نے ان کا ڈھکن ہٹایا اور پانی پی کر اسی طرح ڈھانک دیا جس طرح سے ڈھانکا ہوا تھا (اہل عرب پانی، دودھ اور دیگر معمولی چیزوں کے بارے میں عام طور سے بےاجازت خرچ کرنے پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ ایسی چیزیں بلا اجازت استعمال میں ان کے ہاں رواج عام پذیر تھا اجازت عامہ کی وجہ سے صریح اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے) آپ نے مزید فرمایا کہ دیکھو وہ قافلہ ابھی تنعیم کی گھاٹی سے ظاہر ہونے والا ہے ان کے آگے ایک چتکبرے رنگ کا اونٹ ہے اس کے اوپر سامان کے دو بورے ہیں ایک سیاہ رنگ کا اور دوسرا سفید رنگ کا ہے، یہ بات سن کر وہ لوگ جلدی جلدی تنعیم کی گھاٹی کی طرف چل دئیے وہاں دیکھا کہ واقعی مذکورہ قافلہ آ رہا ہے اور اس کے آگے آگے وہی اونٹ ہے جب قافلے پر گزرنے کی تصدیق ہوگئی تو ان لوگوں نے قافلے والوں سے پوچھا کہ تم نے کسی برتن میں پانی رکھا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم نے ایک برتن میں پانی ڈھانک دیا تھا پھر دیکھا کہ وہ برتن اسی طرح ڈھانکا ہوا ہے لیکن اس میں پانی نہیں ہے، پھر قافلہ والوں سے سوال کیا تمہارا کوئی اونٹ بدک گیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ایک اونٹ بدک کر چلا گیا تھا ہم نے ایک آدمی کی آواز سنی جو ہمیں بلا رہا تھا کہ یہ تمہارا اونٹ ہے یہ آواز سن کر ہم نے اسے پکڑ لیا۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے قافلہ والوں کو سلام بھی کیا تھا اور ان میں بعض سننے والوں نے کہا کہ یہ محمد ﷺ کی آواز ہے۔ سفر معراج کے بعض دیگر مشاہدات معراج کے سفر میں رسول اللہ ﷺ نے بہت سی چیزیں دیکھیں جو حدیث اور شروح حدیث میں جگہ جگہ منتشر ہیں جن کو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ جلد دوم میں اور حافظ نور الدین ہیثمی نے مجمع الزوائد جلد اول میں اور علامہ محمد بن محمد سلیمان المغربی الردانی نے جمع الفوائد جلد سوم (طبع مدینہ منورہ) میں اور حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور علامہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں جمع کیا ہے، بعض چیزیں اوپر ذکر ہوچکی ہیں بعض ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں موسیٰ (علیہ السلام) پر گزرا وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح مسلم ص 368 ج 2) ایسے لوگوں پر گزرنا جن کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے حضرت انس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی اس رات میں، میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہیں اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو وہ باتیں کہتے ہیں جس پر خود عامل نہیں، اور اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 438) کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے تانبے کے ناخن تھے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بےآبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (رواہ ابو داؤد کما فی المشکوٰۃ ص 429) سود خوروں کی بدحالی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آ رہے تھے میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 246) کچھ لوگوں کی کھالیں قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں حضرت راشد بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زنا کرنے کے لیے زینت اختیار کرتے ہیں، پھر میں ایسے بدبودار گڑھے پر گزرا جس سے بہت سخت آوازیں آرہی تھیں میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو زنا کاری کے لیے بنتی سنورتی ہیں اور وہ کام کرتی ہیں جو ان کے لیے حلال نہیں۔ (الترغیب والترہیب ص 511 ج 3) ایک شیطان کا پیچھے لگنا موطا امام مالک میں بروایت یحییٰ بن سعید (مرسلاً ) نقل کیا ہے کہ جس رات رسول اللہ ﷺ کو سیر کرائی گئی آپ نے جنات میں سے ایک عفریت کو دیکھا جو آگ کا شعلہ لیے ہوئے آپ کا پیچھا کر رہا تھا۔ آپ جب بھی (دائیں بائیں) التفات فرماتے وہ نظر پڑجاتا تھا جبرائیل نے عرض کیا کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ بتادوں جنہیں آپ پڑھ لیں گے تو اس کا شعلہ بجھ جائے گا اور یہ اپنے منہ کے بل گرپڑے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں بتادو ! اس پر جبرائیل نے کہا کہ آپ یہ کلمات پڑھیں۔ اعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات التی لایجاوزھن برو لا فاجر من شرما ینزل من السماء وشرما یعرج فیھا، وشرما ذرأ فی الارض وشرما یخرج منھا ومن فتن اللیل والنھار، ومن طوارق اللیل والنھار، الا طارقا یطرق بخیر یا رحمٰن۔ (موطا مالک کتاب الجامع) فرشتوں کا پچھنے لگانے کے لیے تاکید کرنا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کے سفر میں پیش آنے والی جو باتیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ آپ فرشتوں کی جس جماعت پر بھی گزرے انہوں نے کہا کہ آپ اپنی امت کو حجامت یعنی پچھنے کا حکم دیجیے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 389 از ترمذی و ابن ماجہ) عرب میں پچھنے لگانے کا بہت رواج تھا اس سے زائد خون اور فاسد خون نکل جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کا مرض جو عام ہوگیا ہے یہ اس کا بہت اچھا علاج ہے لوگوں نے اسے بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے سر میں اپنے مونڈھوں کے درمیان پچھنے لگاتے تھے۔ (حوالہ بالا) مجاہدین کا ثواب حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ شب معراج میں نبی اکرم ﷺ جبرائیل کے ساتھ چلے تو آپ کا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا جو ایک ہی دن میں تخم ریزی بھی کرلیتے تھے اور اسی ایک دن میں کاٹ بھی لیتے ہیں اور کاٹنے کے بعد پھر ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسے پہلے تھی آپ نے جبرائیل سے دریافت فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں ان کی ایک نیکی سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے اور یہ لوگ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا بدل عطا فرماتا ہے۔ کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے پھر آپ کا ایک اور قوم پر گزر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے، کچلے جانے کے بعد ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے اسی طرح سلسلہ جاری ہے ختم نہیں ہوتا، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ لوگ نماز کے بارے میں کاہلی کرنے والے ہیں سوتے رہ جاتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کی بدحالی پھر ایک اور قوم پر گزر ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ اونٹ اور بیل کی طرح چرتے ہیں اور ضریع اور زقوم یعنی کانٹے دار خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیتے۔ سڑا ہوا گوشت کھانے والے پھر آپ ﷺ کا ایسی قوم پر گزر ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھاتے، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ ایک زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتا ہے اور صبح تک اسی کے پاس رہتا ہے اور آپ کی امت کی وہ عورت ہے جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بدکار کے ساتھ رات گزارتی ہے۔ ضریع آگ کے کانٹے، اور زقوم دوزخ کا بدترین بدبودار درخت۔ لکڑیوں کا بڑا گٹھڑا اٹھانے والا پھر ایک ایسے شخص پر آپ ﷺ کا گزر ہوا جس کے پاس لکڑیوں کا بڑا گٹھڑا ہے وہ اسے اٹھا نہیں سکتا (لیکن) اور زیادہ بڑھانا چاہتا ہے آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون شخص ہے ؟ جبرائیل نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں ان کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا اور مزید امانتوں کا بوجھ اپنے سر لینے کو تیار ہے۔ ایک بیل کا چھوٹے سے سورخ میں داخل ہونے کی کوشش کرنا اس کے بعد ایسے سورخ سے گزر ہوا جو چھوٹا سا تھا اس میں سے ایک بڑا بیل نکلا، وہ چاہتا ہے کہ جہاں سے نکلا ہے پھر اس میں داخل ہوجائے، آپ نے سوال فرمایا یہ کون ہے ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو کوئی براکلمہ کہہ دیتا ہے (جو گناہ کا کلمہ ہوتا ہے) اس پر وہ نادم ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو واپس کردے پھر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ جنت کی خوشبو پھر آپ ﷺ ایک ایسی وادی پر پہنچے جہاں خوب اچھی خوشبو آرہی تھی یہ مشک کی خوشبو تھی اور ساتھ ہی ایک آواز بھی آرہی تھی آپ ﷺ نے دریافت فرمایا یہ کیا ہے ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے میرے رب جو لوگ میرے اندر رہنے والے ہیں انہیں لائیے اور اپنا وعدہ پورا فرمائیے۔ دوزخ کی آواز سننا اس کے بعد ایک اور وادی پر گزر ہوا وہاں صوت منکر یعنی ایک آواز ایسی سنی جو ناگوار تھی، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ جبرائیل نے جواب دیا یہ جہنم ہے یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کر رہی ہے کہ جو لوگ میرے اندر رہنے والے ہیں ان کو لے آئیے اور اپنا وعدہ پورا فرمائیے۔ (انتھت روایۃ ابی ہریرۃ من جمع الفوائد ص 151 ج 3 طبع مدینہ منورہ) باب الحفظہ پہلے آسمان کے دروازے کے بارے میں فرمایا کہ وہ باب الحفظہ ہے اور فرمایا کہ اس پر ایک فرشتہ مقرر ہے جس کا نام اسماعیل ہے اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ہر فرشتے کے ماتحت بارہ ہزار ہیں جب آنحضرت سرور عالم ﷺ نے یہ بات بیان فرمائی تو یہ آیت تلاوت کی (وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ الاَّ ھُوَ ) (فتح الباری ص 209 ج 7 سیرت ابن ہشام) پہلے آسمان پر داروغہ جہنم سے ملاقات ہونا اور جہنم کا ملاحظہ فرمانا جب آپ سماء دنیا یعنی قریب والے آسمان میں داخل ہوئے تو جو بھی فرشتہ ملتا تھا ہنستے ہوئے بشاشت اور خوشی کے ساتھ ملتا تھا اور خیر کی دعا دیتا تھا، انہیں میں ایک ایسے فرشتے سے ملاقات ہوئی جس نے ملاقات بھی کی اور دعا بھی دی لیکن وہ ہنسا نہیں، آپ نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون سا فرشتہ ہے انہوں نے جواب دیا کہ یہ مالک ہے جو دوزخ کا داروغہ ہے یہ اگر آپ سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کے لیے ہنستا تو آپ کی ملاقات کے وقت (بھی) آپ کے سامنے اسے ہنسی آجاتی، یہ فرشتہ ہنسا ہی نہیں ہے آپ نے حضرت جبرائیل سے فرمایا کہ اس فرشتے سے کہیے کہ مجھے دوزخ دکھا دے، جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے کہا یا مالک ار محمد ان النار (اے مالک محمد ﷺ کو دوزخ دکھا دو ) اس پر اس فرشتے نے دوزخ کا ڈھکن اٹھایا جس کی وجہ سے دوزخ جوش مارتی ہوئی اوپر اٹھ آئی آپ نے فرمایا اے جبرائیل اس کو کہیے کہ دوزخ کو اپنی جگہ واپس کردے، چناچہ جبرائیل نے اس فرشتے سے کہا کہ اس کو واپس کردو فرشتے نے اسے واپس ہونے کا حکم دیا جس پر وہ واپس چلی گئی جس پر اس نے ڈھکن ڈھک دیا۔ (سیرت ابن ہشام ص 249 علی ھامش الروض الانف) دودھ، شہد اور شراب کا پیش کیا جانا اور آپ ﷺ کا دودھ کو لے لینا صحیح مسلم میں (ص 91) جو حدیث نقل کی گئی ہے اس میں یوں ہے کہ بیت المقدس ہی میں ایک برتن میں شراب ایک برتن میں دودھ پیش کیا گیا ہے آپ نے دودھ لے لیا اس کے راوی حضرت انس بن مالک ؓ ہیں صحیح مسلم کی دوسری روایت جو صفحہ 95 پر مذکور ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ ؓ ہیں اس میں یوں ہے کہ عالم بالا میں سدرۃ المنتہیٰ کے قریب پینے کی چیزیں پیش کی گئیں اس میں بھی یہ ہے کہ آپ ﷺ نے دودھ لے لیا اور امام بخاری کی روایت میں یہ ہے کہ بیت المعمور سامنے کیے جانے کے بعد ایک برتن میں شراب ایک برتن میں دودھ اور ایک برتن میں شہد پیش کیا گیا، بیت المقدس میں بھی پینے کے لیے چیزیں پیش کی گئی ہوں اور پھر عالم بالا میں بھی حاضر خدمت کی گئی ہوں اس میں کوئی منافات نہیں ہے دوبارہ پیش کیے جانے میں عقلاً نقلاً کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا انکار کیا جائے، صحیح بخاری میں ایک چیز یعنی شہد کا ذکر زیادہ ہے اس میں بھی کوئی اشکال کی بات نہیں بعض مرتبہ راویوں سے کوئی چیز رہ جاتی ہے جسے دوسرا ذکر دیتا ہے و مع ذالک المثبت مقدم علی من لم یحفظ صحیح مسلم (کی روایت ص 97 ج 1) میں یہ بھی ہے کہ جب آپ نے دودھ لے لیا تو حضرت جبرائیل نے عرض کیا کہ اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی، اس سے معلوم ہوا کہ قائد اور پیشوا کے اخلاق اور اعمال کا اثر اس کے ماننے والوں پر بھی پڑتا ہے۔ الفتح الباری (ص 215 ج 7) میں علامہ قرطبی سے نقل کیا ہے کہ دودھ کے بارے میں جو ھی الفطرۃ التی انت علیھا فرمایا، ممکن ہے کہ یہ اس وجہ سے ہو کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے پیٹ میں دودھ داخل ہوتا ہے اور وہی اس کی آنتوں کو پھیلا دیتا ہے (اور ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لہٰذا فطری طور پر فطرت اسلام اور بچہ کی ابتدائی غذا میں ایک مناسبت ہوئی اس لیے فطرت سے دین اسلام مراد لیا) حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ روایات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ (جو برتن پیش کیے گئے وہ) چار تھے دودھ اور شہد اور خمر اور پانی، کسی نے دو کے ذکر پر اکتفا کیا، کسی نے تین کے ذکر پر، یا یہ کہ تین ہوں ایک پیالے میں پانی ہو کہ شیرینی میں شہد جیسا ہو، کبھی اس کو شہد کہہ دیا کبھی پانی اور ہرچند کہ شراب اس وقت حرام نہ تھی کیونکہ یہ مدینہ میں حرام ہوئی مگر سامان نشاط ضرور ہے اس لیے مشابہ دنیا کے ہے، شہد بھی اکثر تلذذ کے لیے پیا جاتا ہے غذا کے لیے نہیں تو یہ بھی امر زائد اور اشارہ لذات دنیا کی طرف ہوا اور پانی بھی معین غذا ہے غذا نہیں جس طرح دنیا معین دین ہے مقصود نہیں اور دین خود غذائے روحانی مقصود ہے جیسا کہ دودھ غذائے جسمانی مقصود ہے اور گو غذائیں اور بھی ہیں مگر دودھ کو اوروں پر ترجیح ہے کہ یہ کھانے اور پینے دونوں کا کام دیتا ہے۔ (کذا فی نشر الطیب وراجع فتح الباری ص 215 ج 8) تفسیر ابن کثیر ص 5 ج 3 میں دلائل النبوۃ للبیہقی سے نقل کیا ہے کہ جب آپ نے پانی کو اور شراب کو چھوڑ دیا اور دودھ کو لے لیا تو جبرائیل نے کہا کہ اگر آپ پانی پی لیتے تو آپ اور آپ کی امت غرق ہوجاتی اور اگر شراب پی لیتے، تو آپ اور آپ کی امت راہ صحیح سے ہٹ جاتی۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر انوارالبیان کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
Top