بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
(17:1) سبحان۔ السبح سے۔ جس کے اصل معنی پانی یا ہوا میں تیز رفتاری سے گذر جانے کے ہیں۔ سبح (فتح) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا۔ پھر استعارۃً یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے وکل فی فلک یسبحون۔ (21:33) سب (اپنے اپنے) فلک یعنی مدار میں تیز رفتاری سے چل رہے ہیں۔ اور گھوڑے کی تیز رفتاری پر بھی بولا جاتا ہے۔ مثلاً والسابحات سبحا (79:3) اور فرشتوں کی قسم جو (آسمان و زمین کے درمیان) تیرتے پھرتے ہیں۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الٰہی بیان کرنے کے ہیں۔ اصل میں اس کے معنی عبادت الٰہی میں تیزی کرنے کے ہیں پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شریر بولا جاتا ہے۔ ابعدہ اللہ خدا اسے ہلاک کرے۔ فجعلنہم غثاء فبعدا للقوم الظلمین (23:41) ہم نے ان کو خس و خاشاک بنادیا۔ سو خدا کی مار ظالم لوگوں پر۔ پس تسبیح کا لفظ قولی، فعلی، قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے۔ الزجاج نے لکھا ہے کہ سبحان مصدر ہونے کی بناء پر منصوب ہے یعنی مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے اور اس کا نصب ایک پوشیدہ فعل کی بناء پر ہے جس کا اظہار متروک ہوچکا ہے اس کی اصل یوں ہے اسبح اللہ سبحانہ تسبیحا۔ میں اللہ کی تسبیح کرتا ہوں۔ علامہ جلال الدین سیوطی الاتقان میں رقمطراز ہیں سبحان مصدر ہے بمعنی تسیبح (پاکی بیان کرنا) اس کو نصب اور کسی اسم مفرد کی طرف مضاف ہونا لازم ہے جو ظاہر ہو جیسے سبحان اللہ اور سبحان الذی اسری بعبدہ یا مضمر ہوجی سے سبحانک لا علم لنا (2:32) اور یہ ایسا مفعول مطلق ہے کہ اس کا فعل حذف کر کے اس کو اس کی جگہ قائم کردیا گیا ہے۔ سبحان الذی پاک ومنزہ ہے ہر قسم کے قبائح سے وہ ذات۔ اسری۔ اسراء (افعال) سے ماضی واحد مذکر غائب مادہ سری سے سری یسری (باب ضرب) اور اسری یسری اسراء (باب افعال) رات کے وقت سفر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ باب ضرب سے فعل لازم آتا ہے اور ب کے ساتھ فعل متعدی ۔ جیسے سری بہ اس نے اس کو رات کو سفر کرایا۔ ابو عبیدہ کے قول کے مطابق اسری میں ہمزہ تعدیہ کے لئے نہیں ہے لہٰذا تعدیہ کے لئے اس کے ساتھ بھی ب کو لایا گیا۔ نیز بعض کے نزدیک اسری لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ الذی اسری بعبدہ جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت۔ بعض کے نزدیک اسری کا مادہ س ر ی سے نہیں جس کے معنی رات کے سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں وائو ہے (ناقص واوی ہے) پس اسری کے معنی کشادہ زمین میں چلے جانا۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا۔ اور اتہم کے معنی ہیں وہ تہامہ میں چلا گیا۔ اس صورت میں سبحان الذی اسری بعبدہ کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو وسیع اور کشادہ سرزمین میں لے گیا۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں۔ لیلا۔ رات کے ایک حصہ میں۔ ایک ہی رات کے تھوڑے وقت میں لیلا بہ صیغہ نکرہ کے اضافہ سے یہ تاکیدو تصریح مقصود ہے کہ اتنا بڑا سفر جو عادۃً کئی ہفتوں میں ممکن تھا۔ مافوق العادۃ کے طور پر رات کی چند گھڑیوں میں ہی انجام پا گیا۔ اسی تبعیض (بعض حصہ) کی بناء پر عبداللہ اور حذیفہ نے من اللیل پڑھا ہے جیسا کہ قول ہے اللہ تعالیٰ کا ومن اللیل فتھجد بہ (17:79) بوجہ اسریٰ کے ظرف زمان ہونے کے منصوب ہے۔ المجسد الاقصی۔ موصوف وصفت، اقصی اسم التفضیل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ بہت بعید۔ بہت دور۔ زیادہ دور۔ قصاء سے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کو باعتبار بعد کے جو مخاطبین قرآن (اہل عرب) سے تھی اقصی کہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ اس کا مادہ ق ص و (ناقص واوی) سے ہے قرآن مجید میں ہے اذ انتم بالعدوۃ الدنیا وھم بالعدوۃ القصوی (8:42) جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکہ پر تھے اور کافر بعید کے ناکہ پر۔ حولہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ حول بمعنی گرد۔ حوالی۔ حولہ اس کے گرد۔ اس کے آس پاس۔ ہٗ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع مسجد اقصی ہے۔ نریہ۔ نری۔ مضارع جمع متکلم ۔ اراء ۃ (افعال) مصدر ہٗ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع عبدہ ہے ہم اس کو دکھاویں۔ من ایتنا۔ من تبعیض کے لئے ہے بعض۔ کچھ۔ ایتنا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ایات جمع ایۃ۔ کی۔ نشانیاں۔ عجائبات قدرت۔ اپنے عجائبات قدرت میں سے بعض ۔ چند۔ کچھ۔ عجائبات یہاں التفاتِ ضمائر ہے۔ پہلے خدا وند تعالیٰ کو ضمیر واحد مذکر غائب سے بیان فرمایا۔ پھر برکنا اور نریہ میں جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا۔ یہ فصاحت و بلاغت کے لئے ہے یا یہ برکات و آیات کے اظہار عظمت و تکریم کے لئے ہے۔ السمیع۔ سمع سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور جب یہ حق تعالیٰ کی صفت واقع ہو تو اس کے معنی ہیں ایسی ذات جس کی سماعت ہر شے پر حاوی ہے۔ سننے والا۔ البصیر۔ دیکھنے والا۔ جاننے والا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔
Top