Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سفر کرایا جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی آیات دکھائیں، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے
:۔ ابن جریر نے حذیفہ کیا کہ وہ (آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا “ پڑھتے تھے۔ 2:۔ طستی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ ان سے نافع بن ازرق نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ” سبحن “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے (آیت) ” الذی اسری “ یعنی محمد ﷺ کو (آیت) ” من المسجد الحرام “ یعنی مسجد حرام سے بیت المقدس تک پھر ان کو واپس مسجد حرام تک لے آئے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے وقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو اعشی کو نہیں سنا اور وہ کہتا ہے۔ قلت لہ لما علا فخرہ سبحان من علقمۃ الفاجر : ترجمہ : میں نے اس کو کہا جب اس کا فخر انتہا کو پہنچ گیا کہ علقمہ فاجر سے اللہ تعالیٰ کی ذات بہت پاک ہے۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ، مسلم اور ابن مردویہ نے ثابت کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا براق کو لایا گیا اور وہ ایک سفید لمبا جانور تھا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا وہ اپنے پاوں اپنی حد نگاہ تک رکھتا تھا میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس تک پہنچا اس کو ایک کڑے کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ انبیاء (اپنی سواریاں) باندھا کرتے تھے پھر میں نے مسجد میں داخل ہو کر دورکعات پڑھیں پھر باہر نکل آیا میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) ایک برتن شراب کا اور ایک برتن دودھ کا لے کر آئے آپ نے دودھ کو اختیار فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ نے فطرت کو پسند کیا پھر ہم کو آسمان دنیا کی طرف بلند کیا گیا جبرائیل (علیہ السلام) نے (دروازہ) کھولنے کو فرمایا تو کہا گیا کون ہے ؟ فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) ہوں کہا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ کہا گیا انکوبلوایا گیا ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں ان کو بلوایا گیا ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا اچانک (وہاں) آدم (علیہ السلام) تھے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر فرمائی پھر ہم کو دوسرے آسمان کی طرف بلند کیا گیا جبرئیل (علیہ السلام) نے کھولنے کو فرمایا کہا گیا آپ کون ہے ؟ فرمایا جبرائل (علیہ السلام) ہو کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں کہا گیا کیا ان کو بلوایا گیا فرمایا گیا ہاں پھر ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا تو میں خالہ زاد بھائی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ (علیہما السلام) کو تشریف فرما پایا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے خیر کی دعا فرمائی پھر تیسرے آسمان کی طرف ہم کو لے جایا گیا جبرئیل (علیہ السلام) نے (دروازہ) کھولنے کو فرمایا کہا گیا آپ کون ہے ؟ فرمایا جبرائل (علیہ السلام) ہوں کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں کہا گیا ان کو بلوایا گیا فرمایا گیا ہاں پھر ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا اچانک (وہاں) یوسف (علیہ السلام) تھے اور ان کو (سارے حسن کا) آدھا حسن دیا گیا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی پھر چوتھے آسمان کی طرف ہم کو لے جایا گیا جبرئیل (علیہ السلام) نے (دروازہ) کھولنے کو فرمایا کہا گیا آپ کون ہے ؟ فرمایا جبرائل (علیہ السلام) ہوں کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں کہا گیا ان کو بلوایا گیا فرمایا گیا ہاں پھر ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا اچانک میں نے وہاں ادریس (علیہ السلام) کو پایا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے خیر کی دعا فرمائی پھر چھٹے آسمان کی طرف ہم کو لے جایا گیا جبرئیل (علیہ السلام) نے (دروازہ) کھولنے کو فرمایا کہا گیا آپ کون ہے ؟ فرمایا جبرائل (علیہ السلام) ہوں کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں کہا گیا ان کو بلوایا گیا فرمایا گیا ہاں پھر ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا وہاں میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پایا انہوں مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے خیر کی دعا فرمائی پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے جایا گیا جبرئیل (علیہ السلام) نے (دروازہ) کھولنے کو فرمایا کہا گیا آپ کون ہے ؟ فرمایا جبرائل (علیہ السلام) ہوں کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں کہا گیا ان کو بلوایا گیا فرمایا گیا ہاں پھر ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا وہاں میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پایا جو بیت المعمور کی طرف اپنی کمر کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے بیت المعمور وہ جگہ ہے جہاں ہر دن ستر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں (جو ایک دفعہ حاضر ہوتے ہیں) پھر اس کی طرف لوٹ کر نہیں آتے پھر مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے جایا گیا اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اس کا پھل مٹکوں کی طرح تھا پر جب اس بیری کو کسی چیز نے ڈھانک لیا اللہ کے حکم سے جس چیز نے ڈھانکا جس سے وہ تبدیل ہوگئی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتا پھر میری طرف وحی کی گئی جو وحی کی گئی اور وہ مجھ پر رات اور دن میں پچاس نمازیں فرض کردی گئیں میں نیچے اترا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف پہنچا تیرے رب نے تیری امت پر کیا فرض فرمایا میں نے کہا پچاس نمازیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو کیونکہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں میں اپنے رب کی طرف لوٹا میں نے عرض کیا اے میرے رب میری امت سے تخفیف کیجئے تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردیں گئیں پھر میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹ آیا اور میں نے کہا ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں کم کردی گئیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی اپنے رب کے پاس (دوبارہ) لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو فرمایا میں برابر لوٹتا رہا اپنے رب اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد وہ پانچ نمازیں ہوں گی رات اور دن میں اور ہر نماز کے لئے (ثواب) دس نمازوں کا ہوگا اس طرح پچاس نمازیں ہوجائیں گی جو شخص ایک نیکی کا ارادہ کرے گا اور اس پر عمل نہیں کرے گا تو ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس پر عمل کرے گا تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو شخص ایک برائی کا ارادہ کرے گا پھر اس پر عمل نہیں کیا تو کوئی چیز نہیں لکھی جائے گی اور اس نے عمل کرلیا تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی آپ نیچے اتر آئے یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور ان کو خبر دی تو انہوں نے فرمایا اپنے رب کی طرف (پھر) لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو میں نے عرض کی میں اپنے رب کی طرف (بار بار) لوٹا اب مجھے شرم آتی ہے۔ اسراء اور معراج کا واقعہ : 4:۔ بخاری، مسلم، ابن جریر، ابن مردویہ نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت کعبہ کی مسجد سے لے جایا گیا ان کے پاس تین آدمی آئے ان کی طرف وحی آنے سے پہلے اور آپ مسجد حرام میں نیند فرما رہے تھے ان تین میں سے ایک نے کہا یہ کون ہے ؟ ان کے درمیان والے نے کہا یہ ان سب سے بہتر ہیں ان میں سے ایک نے کہا ان میں سے بہتر آدمی کو اٹھا لو اس رات کو آپ نے ان کو پھر نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ دوسری رات میں آئے اس طرح پر کہ آپ ان کو دل (کی آنکھ) سے دیکھ رہے تھے آپ کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا تھا اسی طرح سب انبیاء کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کے دل نہیں سوتے ان فرشتوں نے ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ ان کو اٹھا لیا اور زمزم کے کنویں کے پاس رکھ دیا پھر ان سے جبرئیل (علیہ السلام) نے لے لیا اور ان کے گلے سے لے کر سینے کے اوپر حصے تک چیر دیا یہاں تک کہ آپ کا سینہ اور پیٹ کھل گئے پھر آپ کے باطن کو اپنے ہاتھ سے زمزم کے پانی سے دھویا یہاں تک کہ آپ کا باطن بالکل صاف ہوگیا پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا پھر ایمان اور حکمت کو ان کے سینے میں بھر دیا اور ان کی حلق کی رگوں کو بھی بھر دیا پھر اس کو بند کردیا گیا پھر آسمان دنیا پر ان کو لے جایا گیا اور ان دروازوں میں سے ایک دروازہ کھٹکایا کہا گیا کون ہیں ؟ فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) ہوں کہا گیا اور تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں کہا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں فرشتوں نے خوش آمدید کہا اور آسمان دنیا میں آدم (علیہ السلام) کو پایا جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں ان کو سلام کیجئے آپ نے ان کو سلام فرمایا اور آدم (علیہ السلام) نے آپ کے سلام کو جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید اے میرے بیٹے تو بہت اچھا بیٹا ہے پس آسمان دنیا میں دو نہریں بہہ رہی تھیں آپ نے پوچھا اے جبرئیل (علیہ السلام) یہ کون سی نہریں ہیں فرمایا یہ نیل اور فرات کی اصل ہے جہاں سے وہ نکل رہی ہیں پھر آپ آسمان میں چلے تو وہ ایک اور نہر تھی کہ جب پر موتی اور زبر جد کا محل بنا ہوا تھا اس کو ہاتھ لگایا تو اچانک وہ ایک مشک اور اذخر (کستوری) تھی پوچھا اے جبرئیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ کوثر ہے جس کو آپ کے رب نے آپ کے لئے چھپایا ہوا ہے پھر دوسرے آسمان پر آپ کو لے جایا گیا فرشتوں نے اسی طرح سوال کی جس طرح پہلے آسمان والوں نے کیا تھا پوچھا کون ؟ فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) پھر فرشتوں نے پوچھا تیرے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا کیا ان کو بلایا گیا ؟ فرمایا ہاں تو فرشتوں نے خوش آمدید کہا پھر تیسرے آسمان کی طرف آپ کو لے جایا گیا فرشتوں نے یہاں بھی پہلے اور دوسرے آسمان والے فرشتوں کی طرح سوالات کئے پھر چوتھے آسمان کی طرف آپ کو لے جایا گیا تو فرشتوں نے پہلے کی طرح سوالات کئے پھر پانچویں آسمان کی طرف لے جایا گیا تو فرشتوں نے پہلے کی سوالات کئے پھر چھٹے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو فرشتوں نے پہلے کی طرح سوالات کئے پھر ساتوں آسمان کی طرف لے جایا گیا تو فرشتوں نے پہلے طرح سوالات کئے ہر آسمان پر انبیاء تھے جن کا نام لیا گیا ان میں سے ادریس (علیہ السلام) دوسرے آسمان پر تھے ہارون (علیہ السلام) چوتھے آسمان میں تھے اور دوسرے نبی پانچویں آسمان میں تھے جن کا نام یاد نہیں رہا اور ابراہیم (علیہ السلام) چھٹے آسمان میں تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) ساتویں آسمان میں تھے اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کی فضیلت کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ تو مجھے پر کسی کو بلند کرے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو ان بلندیوں پر اٹھا لیا کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہی پر پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی جس میں پچاس نمازیں فرض فرمائیں آپ کی امت پر دن اور رات میں پھر آپ نیچے اترے یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے موسیٰ (علیہ السلام) نے آپ کو روک لیا اور پوچھا اے محمد آپ کے رب نے آپ کے ساتھ عہد فرمایا ہے ؟ فرمایا اس نے ہر دن اور رات میں پچاس نمازوں کا حکم فرمایا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی واپس جاؤ اور اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے اپنے رب سے تخفیف طلب کریں نبی کریم ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا گویا کہ آپ نے ان سے مشورہ مانگا جبرئیل (علیہ السلام) نے اشارہ فرمایا ہاں ٹھیک ہے اگر آپ چاہیں آپ جبار تبارک وتعالیٰ کی طرف اوپر تشریف لے لئے اور درخواست کی اے میرے لئے رب ہم سے تخفیف فرمائیے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی تو دس نمازیں کم کردی گئیں پھر آپ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹے انہوں نے آپ کو روکا (اور پوچھا) موسیٰ (علیہ السلام) نے آپ کو بار بار اپنے رب کی طرف لوٹایا یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے پانچ نمازوں پر بھی آپ کو روکا اور فرمایا اے محمد اللہ کی قسم میں نے بنی اسرئیل کو اس سے کم نمازوں پر آزمایا مگر وہ کمزور پڑگئے اور اللہ کے حکم چھوڑ دیا اور آپ کی امت زیادہ کمزور ہے جسموں کے لحاظ سے، دلوں کے لحاظ، بدنوں کے لحاظ سے، آنکھوں کے لحاظ سے اور کانوں کے لحاظ سے لوٹ جائیے اور اپنے رب سے مزید تخفیف کرائیے نبی کریم ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف توجہ فرمائی تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرئیل (علیہ السلام) نے مزید تخفیف طلب کرنے کو پسند نہ فرمایا پھر آپ پانچویں مرتبہ اوپر تشریف لے گئے اور عرض کیا اے میرے رب کہ میری امت کمزور ہے اپنے جسموں اپنے دلوں اپنے کانوں اور اپنے بدنوں کے لحاظ سے ہم سے مزید تخفیف فرمائیے جبار عزوجل نے فرمایا اے محمد عرض کیا لبیک وسعد یک پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوتی جیسے کہ تم پر نماز میں ام الکتاب (یعنی لوح محفوظ) میں فرض کی گئی ہے اب اسی طرح رہے گی اور ہر نیکی دس کے برابر ہے اور یہ ام الکتاب میں پچاس ہوں گی مگر آپ پر پانچ فرض ہیں یہ سن کر آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس لوٹے پوچھا کیا ہوا فرمایا ہم سے (حکم) ہلکا کردیا گیا ہم کو ہر نیکی کے بدلہ میں دس کے برابر ثواب عطا کیا گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کی قسم میں بنی اسرائیل کو اس سے بھی کم پر آزما چکا ہوں مگر انہوں نے (حکم) کو چھوڑ دیا اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور مزید تخفیف کی درخواست کرو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی قسم میں اللہ کی بارگاہ میں باربار حاضر ہوا ہوں اب مجھے اپنے رب کی بار گاہ میں جانے سے شرم آرہی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اتر جاؤ (اس کے بعد) آپ جاگ گئے اور آپ مسجد حرام میں تھے۔ 5:۔ نسائی اور ابن مردویہ نے یزید بن ابی مالک کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات مجھے سیر کرائی گئی میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا ایک قدم حدنگاہ تک پڑتا تھا۔ مجھ سے پہلے یہ (دوسرے) انبیاء کرام (علیہم السلام) کو لے کر گیا تھا۔ میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ سوار ہوا، میں رات کے وقت چلا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اترے اور نماز پڑھئیے میں نے ایسا ہی کیا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی اور اس کی طرف آپ کی ہجرت کرنے والے ہیں اگر اللہ نے چاہا، پھر فرمایا اتریے اور نماز پڑھیے اور میں نے ایسا ہی کیا پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ؟ آپ نے طور سینا میں نماز پڑھی جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا پھر فرمایا اتریے اور نماز پڑھیے میں نے نماز پڑھی پوچھا کیا آپ جانتے ہیں آپ نے کہاں نماز پڑھی ؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ پھر بیت المقدس میں داخل ہوئے میرے ساتھ سب انبیاء کرام (علیہم السلام) کو اکٹھا کیا گیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے آگے کردیا میں نے ان کو نماز پڑھائی۔ پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے مجھے آسمان دنیا کی طرف لے گئے۔ اس میں آدم (علیہ السلام) تھے مجھ سے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کو سلام کیجئے (میں نے سلام کیا) انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے اور صالح نبی خوش آمدید پھر مجھے دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ اس میں میرے خالہ زاد بھائی عیسیٰ (علیہ السلام) اور یحی (علیہ السلام) تھے پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس میں یوسف (علیہ السلام) تھے، پھر مجھے چوتھے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، اس میں ہارون (علیہ السلام) تھے، پھر مجھے پانچویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ اس میں ادریس (علیہ السلام) تھے پھر چھٹے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، اس میں موسیٰ (علیہ السلام) تھے، پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس میں ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔ پھر مجھے ساتویں آسمان سے اوپر اٹھایا گیا اور میں سدرۃ المنتہی پر پہنچا اس کو پہر نے ڈھانک لیا میں سجدے میں گرپڑا، مجھ سے کہا گیا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ اس دن میں نے تجھ پر اور تیری امت پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، تو بھی اور تری امت بھی ان کو قائم کرے۔ میں ابراہیم (علیہ السلام) پر سے گزرا انہوں نے مجھ سے کوئی سوال نہ کیا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) پر گزرا انہوں نے مجھ سے پوچھا تجھ پر اور تیری امت پر کتنی نمازیں فرض کیں۔ میں نے کہا پچاس نمازیں پھر انہوں نے فرمایا تیری امت ان کو قائم نہیں کرسکے گی اپنے رب سے تخفیف کا سوال کر، میں لوٹ کر سدرۃ المنتہی پر آیا اور سجدہ میں گرپڑا۔ میں نے عرض کیا اے میرے رب ! آپ نے مجھ پر اور میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ میں اور میری امت ان کو قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ تو مجھ سے دس نمازوں کو کم کردیا گیا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے عرض کیا مجھ سے دس نمازیں کم کردی گئیں۔ فرمایا پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور ان سے تخفیف کی درخواست کرو، پس اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی تخفیف کردی حتی کہ فرمایا یہ پانچ نمازیں پچاس کے بدلے میں ہیں۔ تو اور تیری امت اس کو قائم کرے۔ میں نے جان لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے مقرر ہوگئی۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کتنی نمازیں فرض ہوئی میں نے کہا پانچ نمازیں۔ انہوں نے فرمایا بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض ہوئی تھیں۔ انہوں نے ان کو بھی قائم نہ کیا میں نے کہا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اب میں واپس نہیں جاوں گا۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے ایک دوسرے طریق سے یزید بن ابی مالک سے اور انہوں نے انس ؓ سے روایت کیا کہ وہ رات جس میں رسول اللہ ﷺ کو سیر کرائی گئی۔ جبرائیل (علیہ السلام) ایک جانور کو لے کر آئے جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو اس پر سوار کیا وہ اتنا تیز رفتار تھا کہ اس (جانور) کا قدم حد نگاہ تک پڑتا تھا۔ جب بیت المقدس پہنچا۔ ایک پتھر کی طرف آئے جو وہاں تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اس میں انگلی مار کر سوراخ کردیا۔ پھر اس سے (جانور کو) باندھ دیا اور پھر اوپر بڑھے۔ اور جب مسجد کے صحن میں پہنچے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے پوچھا اے محمد ! کیا آپ نے اپنے رب سے یہ سوال کیا تھا کہ وہ آپ کو حورعین دکھلائے ؟ فرمایا ہاں ! جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا ان عورتوں کی طرف چلئے اور ان کو سلام کیجئے۔ اور وہ بیٹھی ہوئی ہیں اس چٹان کے بائیں طرف ہیں۔ میں ان کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم خیرات حسان ہیں ہم ان نیک لوگوں کی بیویاں ہیں جو صاف ستھرے ہوں گے۔ اور اپنے آپ کو گناہوں سے ملوث نہ رکھیں وہ قیام کریں گی اور کوچ نہ کریں گی۔ وہ ہمیشہ رہیں گیں اور نہیں مریں گی۔ پھر میں واپس آیا اور تھوڑا سا ٹھہرا۔ یہاں تک کہ بہت لوگ جمع ہوگئے پھر ایک موذن نے آذان دی تکبیر کہی۔ ہم صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ اور ہم نے انتظار کیا کہ کون امامت کراتا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کردیا۔ میں نے ان کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کردیا۔ میں نے ان کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اے محمد ﷺ کیا تو جانتا ہے کہ تیرے پیچھے کس نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا نہیں ( میں نہیں جانتا) جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تیرے پیچھے ہر نبی نے نماز پڑھی۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے گئے۔ جب ہم دروازہ پر پہنچے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ فرشتوں نے کہا تو کون ہے ؟ فرمایا میں جبرائیل (علیہ السلام) ہوں۔ کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ۔ فرشتوں نے کہا کیا ان کو بلایا گیا ؟ فرمایا ہاں ! دروازہ آپ کے لئے کھول دیا گیا۔ فرشتوں نے کہا خوش آمدید ہو آپ کو اور جو آپ کے ساتھ ہے۔ جب آپ آسمان کے درمیان پہنچے تو فرمایا آدم (علیہ السلام) تھے جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا۔ کیا آپ اپنے والد آدم (علیہ السلام) کو سلام نہیں کرتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ! پھر میں ان کے پاس آکر ان کو سلام کیا، انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا۔ اور مجھ سے فرمایا خوش آمدید اے میرے بیٹے اور صالح نبی۔ پھر مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوایا فرشتوں نے اسی طرح ان سے (سوالات کئے) اس میں یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ دروازہ کو کھولنے کو فرمایا تو فرشتوں نے اسی طرح سوالات کیے اس میں یوسف (علیہ السلام) تھے۔ پھر مجھے چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ دروازہ کھولنے کو فرمایا تو فرشتوں نے اسی طرح سوالات کیے اس میں ادریس (علیہ السلام) تھے پھر مجھے پانچویں آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ دروازہ کھولنے کو فرمایا تو فرشتوں نے اسی طرح سوالات کیے۔ اس میں ہارون (علیہ السلام) تھے پھر مجھے چھٹے آسمان پر لے جایا گیا۔ دروازہ کھولنے کو فرمایا فرشتوں نے ا سی طرح سوالات کیے۔ اس میں موسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ دروازہ کھولنے کو فرمایا تو فرشتوں نے اسی طرح سوالات کئے اس میں ابراہیم (علیہ السلام) تھے پھر ساتویں آسمان کے وسط میں لے جایا گیا۔ یہاں تک کہ میں ایک نہر تک پہنچا جس پر یاقوت کے اور موتیوں کے زبرجد کے خیمے تھے۔ اس پر سبز پرندہ تھا۔ اور انتہائی خوبصورت پرندہ میں نے دیکھا۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ پرندہ بڑا نرم اور نازک ہے۔ فرمایا اے محمد ﷺ اس کو کھانے والے اس سے زیادہ نرم ہیں پھر پوچھا کیا آپ جانتے ہیں یہ نہر کونسی ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا یہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر عطاء فرمائی ہے۔ اس میں سونے اور چاندی کے برتن ہیں۔ اور وہ یاقوت اور زمرد کی پتھروں پر جاری ہوتی ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے۔ میں نے اس کے برتنوں میں سے ایک برتن لیا اور اس کو پانی سے بھر کر پیا تو شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔ پھر مجھے لے جایا گیا یہاں تک کہ ایک درخت تک پہنچے۔ مجھے ایک بادل نے ڈھانک لیا۔ جس میں ہر رنگ تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے چھوڑ دیا۔ اور میں اللہ کے لئے اور میں اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گرپڑا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا اے محمد ! جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اس دن سے میں نے تجھ پر اور تیری امت پر پچاس نمازیں فرض کیا ہیں۔ تو اور تیری امت ان کو قائم کرے۔ پھر وہ بادل مجھ سے ہٹ گیا اور جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑ کر جلدی جلدی چلنے لگے۔ میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آیا مگر انہوں نے مجھ سے کچھ بھی نہ فرمایا، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ انہوں نے پوچھا اے محمد ﷺ کیا ہوا میں نے کہا مجھ پر اور میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ تو اور تیری امت ان کو قائم کرے۔ پھر وہ بادل مجھ سے ہٹ گیا۔ اور جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑ کر جلدی جلدی چلنے لگے۔ میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آیا مگر انہوں نے مجھ سے کچھ بھی نہ فرمایا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ انہوں نے پوچھا اے محمد ﷺ کیا ہوا میں نے کہا مجھ پر اور میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو اور تیری امت اس پر طاقت نہیں رکھتی اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو، میں جلدی جلدی لوٹا اور اس درخت کے پاس پہنچا۔ مجھے ایک بادل نے ڈھانک لیا۔ اور میں سجدہ کرتے ہوئے گرپڑا میں نے عرض کیا اے میرے رب ! ہم سے تخفیف فرمایے۔ فرمایا میں نے تم سے دس نمازیں کم کردیں، پھر وہ بادل مجھ سے ہٹ گیا۔ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹا اور کہا کہ مجھ سے دس نمازیں کم کردی گئیں۔ فرمایا پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کا سوال کرو۔ (اس طرح) دس (کم کرتے کرتے) فرمایا اب پانچ پچاس کے بدلے میں ہیں، پھر آپ واپس آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں جن آسمان والوں پر پہنچا تو وہ مجھے خوش آمدید کہتے ہیں اور مجھ پر ہنسے سوائے ایک آدمی کے کہ میں نے اس پر سلام کیا اس نے مجھے سلام کا جواب دیا۔ اور مجھے مرحبا کہا مگر مجھ پر نہ ہنسا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا وہ مالک ہے جو جہنم کا داروغہ ہے۔ وہ نہیں ہنسا جب سے وہ پیدا ہوا اگر کسی کے لئے ہنستا تو وہ تیری طرف دیکھ کر ہنستا۔ فرمایا پھر میں واپس آتے ہوئے سوار ہوا اس درمیان کے آپ بعض راستے میں تھے۔ قریش کے ایک قافلے سے گزرے جو خوراک اٹھائے ہوئے تھا اس میں سے ایک اونٹ پر دو بوریاں تھیں۔ ایک کالی بوری اور ایک سفید بوری۔ جب (یہ لوگ) فافلہ کے بالمقابل ہوئے وہ اونٹ بدک گیا۔ بھاگا اور وہ اونٹ زمین پر گرا اس کا پاوں ٹوٹ گیا۔ پھر صرف آپ چلے جو رات کو دیکھا تھا اس کی خبر دی، جب مشرکین نے آپ کی معراج کا واقعہ سنا تو ابوبکر ؓ سے کے پاس آئے۔ کہنے لگے اے ابوبکر ! اپنے ساتھی کی کیا تو اب بھی تصدیق کریگا کہ وہ کہتا ہے کہ وہ اس رات میں ایک ماہ کی مسافت طے کر آیا ہے۔ اور پھر اسی رات میں لوٹا آیا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا اگر انہوں نے ایسا فرمایا ہے تو سچ فرمایا اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ ہم تو اس سے زیادہ دور باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ہم آسمان کی خبر پر اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ نے کہا جو تو کہتا ہے اس کی کیا نشانی ہے ؟ فرمایا جس قریش کے قافلے کے ساتھ گزرا ہوں۔ اور وہ اس طرح اور اس طرح فلاں مقام پر تھا ہماری وجہ سے ان کا اونٹ بھاگا تھا اور اس قافلے میں ایک اونٹ تھا جس پر دو بوریاں تھیں ایک سفید بوری ایک کالی بوری، وہ اونٹ زمین پر گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جب قافلہ آیا لوگوں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے وہی کچھ بتایا جو آپ ﷺ نے ان کے بارے میں بیان فرمایا تھا۔ اس وجہ سے ابوبکر ؓ کو صدیق کہا جاتا ہے۔ اور مشرکین نے آپ سے پوچھا جو آپ ﷺ سے ملے تھے کیا ان میں موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے۔ فرمایا ہاں۔ مشرکین نے کہا ان کی شکل و صورت بیان کیجئے۔ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) گندمی رنگ کے آدمی تھے گویا وہ ازدعمان کے آدمیوں میں سے ہیں۔ لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) میانہ قد کے گھونگھریالے بالوں والے تھے۔ ان کے چہرے پر سرخی غالب ہے گویا کہ ان کی داڑھی سے موتی ٹپک رہے ہیں۔ 7:۔ ابن جریر، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں عبدالرحمان بن ہاشم بن عتبہ کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) جب رسول اللہ ﷺ کے پاس براق کو لے آئے۔ براق نے اپنے کانوں کو حرکت دی۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اے براق اللہ کی قسم۔ تجھ پر اس برگزیدہ آدمی کی مثل کوئی سوار نہیں ہوا رسول اللہ ﷺ رات کو چلے۔ اچانک اس راست کی ایک جانب ایک بڑھیا تھی، پوچھا جبرائیل (علیہ السلام) سے کہ اے جبرائیل یہ کون ہے ؟ فرمایا اے محمد ﷺ یہ ایک بھید ہے آپ چلیں۔ آپ چلے جتنا اللہ نے چاہا۔ اچانک وہ ایک چیز تھی جو ان کو بلا رہی تھی۔ راستے سے ایک طرف ہٹ کر۔ اور کہہ رہی تھی اے محمد ﷺ آجاؤ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اے محمد ﷺ یہ ایک بھید ہے۔ رات کو چلتے رہے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ملی۔ انہوں نے کہا آپ پر سلام اے اول اور آپ پر سلام ہو اے آخر۔ اور آپ پر سلام ہو اے جمع کرنے والے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا۔ ان کو سلام کا جواب دو ۔ آپ نے سلام کا جواب دیا پھر ایک دوسری قوم سے ملاقات ہوئی۔ اس نے بھی اسی طرح سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا پھر تیسری سے ملاقات ہوئی۔ اس سے بھی اسی طرح سوال جواب ہوا۔ یہاں تک کہ بیت المقدس کی طرف پہنچے۔ آپ پر پانی شراب اور دودھ کو پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دودھ کو لیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا۔ آپ نے فطرۃ کو پایا۔ اگر آپ پانی کو پیتے تو آپکی امت (پانی میں) غرق ہوجاتی۔ اور اگر آپ شراب کو پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ پھر آپ کے لئے آدم (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء تشریف لائے۔ رسول اللہ ﷺ اس رات ان کی امامت کرائی۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا وہ بڑھیا جو آپ نے راستے کے ایک طرف دیکھی تھی دنیا کا صرف اتنا حصہ باقی ہے جتنی کہ اس بڑھیا کہ عمر میں سے باقی ہے اور وہ چیز جس کی طرف آپ نے ارادہ کیا تھا اس کی طرف مائل ہونے کا۔ وہ اللہ کا دشمن شیطان تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ آپ اس کی طرف مائل ہوں۔ اور وہ لوگ جنہوں نے آپ کو سلام کیا وہ ابراہیم، موسیٰ ، اور عیسیٰ (علیہم السلام) تھے۔ 8:۔ ابن مردویہ نے کثیر بن خنیس کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس درمیان کہ میں ایک مسجد میں سویا ہوا تھا۔ اچانک میں نے تین آدمیوں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ایک نے کہا یہ وہ ہے درمیان والے نے کہا ہاں ! (یہی ہے) تیسرے نے کہا اس کو اٹھالو یہ قوم کا سردار ہے پھر وہ تینوں واپس لوٹ گئے۔ پھر میں نے اس کو دوسری رات دیکھا۔ ایک نے کہا وہ یہ ہے یہ وہ ہے درمیان والے نے کہا ہاں ! (یہی ہے) تیسرے نے کہا اس کو اٹھالو یہ قوم کا سردار ہے۔ پھر وہ واپس چلے گئے حتی کہ میں نے ان کو تیسری رات پھر دیکھا ایک نے کہا وہ یہ ہے یہ وہ ہے درمیان والے نے کہا ہاں ! (یہی ہے) تیسرے نے کہا تو اس سردار کو اٹھا لو یہاں تک کہ وہ مجھے زمزم کے پر لے آئے پھر مجھے اپنی پیٹھ کے بل لٹا دیا۔ پھر میرے باطن کو دھویا۔ پھر ان کے بعض کو بعض سے کہا اس کو صاف ستھرا کرو۔ پھر سونے کا ایک طشت حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا لایا گیا۔ اور اس کو میرا پیٹ میں انڈیل دیا گیا۔ پھر مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ دروازہ کھولنے کو فرشتوں سے کہا۔ کون ہے ؟ فرمایا جبرائیل ہوں۔ فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ہیں۔ کہا کیا انکو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں ! دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں آدم (علیہ السلام) تھے۔ جب انہوں نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو ہنس پڑے۔ اور جب اپنے بائیں طرف دیکھا تو روپڑے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں۔ جب انہوں نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو اپنی اولاد کو جنت میں دیکھا تو ہنس پڑے اور جب اپنی بائیں طرف دیکھا تو اپنی اولاد کو جہنم میں دیکھا تو روپڑے۔ پھر حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا اے بھتیجے ! آگے طویل حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا پھر مجھے اوپر اٹھایا گیا۔ یہاں تک کہ چھٹا آسمان آیا اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ہیں۔ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں ! دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں موسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ پھر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا دروازہ کھولنے کو کہا۔ فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ـ؟ فرمایا محمد ہیں۔ کہا گیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں ! دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں ابراہیم (علیہ السلام) تھے ابراہیم (علیہ السلام) نے خوش آمدید کرتے ہوئے فرمایا اے میرے بیٹے اور رسول پھر چلے یہاں تک کہ جنت کی طرف آیا دروازہ کھولنے کو کہا۔ فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ہیں کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں ! دروازہ کھول دیا گیا۔ میں جنت میں داخل ہوا اور مجھے کوثر عطاء کی گئی۔ وہ جنت میں ایک نہر تھی کہ جس کے کناروں پر کھوکھلے موتیوں کے گھر تھے۔ پھر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی تک آئے فرمایا (آیت) ” دنا فتدلی (8) فکان قاب قوسین اوادنی (9) فاوحی الی عبدہ ما اوحی (10) “ (اس کے بعد) مجھ پر اور میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ میں لوٹا یہاں تک کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا پوچھا تم اور تمہاری امت پر کتنی نمازیں فرض ہوئیں۔ میں نے کہا پچاس نمازیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے کتنی نمازیں تجھ پر فرض کی گئیں اور تیری امت پر۔ میں نے کہا چالیس نمازیں فرمایا لوٹ جا اپنے رب کی طرف اس سے اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کرو۔ میں پھر اسی جگہ پر لوٹ آیا تو مجھ سے مزید دس کم کردی گئیں، میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا انہوں نے مجھ سے پوچھا تجھ پر اور تیری امت پر کتنی نمازیں فرض ہوئیں۔ میں نے کہا تیس نمازیں اپنی طرف اور اپنی امت کی طرف سے۔ میں ان کی طرف لوٹ آیا تو مجھ سے مزید دس نمازی معاف کردی گئیں۔ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹ آیا پوچھا کتنی نمازیں تیری اور تیری امت پر فرض کی گئیں۔ میں نے عرض کیا بیس نمازیں۔ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی طرف لوٹ جا۔ اور اس سے تخفیف کا سوال کرو اپنی امت کی طرف سے اور اپنی طرف سے۔ میں لوٹ آیا تو مجھ سے مزید کم کردی گئیں پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹا پوچھا تجھ پر اور تیری امت پر کتنی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں نے کہا دس نمازیں۔ فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جا اپنی امت کی طرف سے اور اپنی طرف سے اور اس سے تخفیف کا سوال کرو۔ میں واپس آیا تو مزید پانچ نمازیں کم کردی گئیں۔ پھر فرمایا میری بات تبدیل نہیں ہوتی۔ اور نہ میری کتاب منسوخ ہوتی۔ کم سے یہ تخفیف پانچ نمازوں کی طرح ہے۔ اور بلاشبہ اس میں آپ کے لئے پچاس نمازوں کا اجر ہوگا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا پوچھا تجھ پر اور تیری امت پر کتنی نمازیں فرض ہوئیں ؟۔ میں نے کہا پانچ نمازیں۔ فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جا اپنی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے اور اس سے تخفیف کا سوال کرو، کیونکہ بنی اسرائیل کو اس سے بھی آسان حکم کیا گیا تھا۔ تو انہوں نے اس کو پورا نہ کیا۔ فرمایا میں اپنے رب کے ہاں باربار حاضر ہوں، یہاں تک کہ اب میں ان سے شرم کرتا ہوں۔ 9:۔ بزار، ابن ابی حاتم، طبرانی ابن مردویہ اور بیہقی سے دلائل ہیں ( بیہقی سے تصحیح بھی کی) شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میرے پاس ایک سفید جانور لے کر آئے۔ جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اور فرمایا سوار ہوجاؤ۔ مجھ پر سوار ہونا مشکل ہوگیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کا کان پکڑ کر گھمایا۔ پھر مجھے اس پر سوار کردیا۔ وہ ہم کو لے کر جلدی جلدی چل پڑا وہ اتنا تیز رفتار تھا کہ اس کا پاوں حد نگاہ پر پڑتا تھا۔ حتی کہ ہم کھجوروں والی زمین میں پہنچے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اتریے میں اترا فرمایا نماز پڑھئے میں نے نماز پڑھی۔ پھر ہم سوار ہوگئے۔ فرمایا کیا آپ جانتے ہیں آپ نے کہاں نماز پڑھی ؟ میں نے کہا اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا آپ نے یثرب میں نماز پڑھی۔ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی۔ پھر وہ سواری ہم کو لے کر چلی۔ اس کا قدم حد نگاہ پر پڑتا تھا۔ پھر ہم میں ایک زمین پر پہنچے فرمایا اتریئے۔ میں اترا۔ فرمایا نماز پڑھئے میں نے نماز پڑھی۔ پھر ہم سوار ہوگئے فرمایا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ؟ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا آپ نے مدین میں نماز پڑھی آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے درخت کے پاس نماز پڑھی ؟ پھر وہ جانور ہم کو لے کر چل پڑا اس کا قدم حدنگاہ پر پڑتا تھا۔ پھر ہم ایک زمین پر پہنچے کہ ہمارے لئے اس کے محلات ظاہر ہوگئے فرمایا اترئے میں اترا۔ فرمایا نماز پڑھیے تو میں نے نماز پڑھی۔ پھر ہم سوار ہوئے فرمایا کیا آپ جانتے ہیں کہ کہاں آپ نے نماز پڑھی میں کہا اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا آپ نے فرمایا بیت اللحم میں آپ نے نماز پڑھی۔ جہاں عیسیٰ بن مسیح بن مریم (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ پھر وہ مجھے لیکر چلا۔ یہاں تک کہ ہم ایک شہر کے دائیں دروازے سے داخل ہوئے۔ مسجد کی قبلہ کی طرف آئے اور اس میں جانور باندھ دیا گیا۔ ہم ایسے دروازہ سے داخل ہوئے کہ اس میں سورج اور چاند ڈھلتے ہیں۔ میں نے مسجد میں نماز پڑھی جہاں اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ مجھے سخت پیاس لگی میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ان میں سے ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شہد تھی۔ میرے پاس دونوں اکٹھے بھیجے گئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی۔ تو میں دودھ کو لے کر پی گیا۔ یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگیا۔ اور میری ایک جانب میں ایک شیخ تھے۔ جو اپنے منبر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، انہوں نے کہا تیرے ساتھی نے فطرت کو قبول کیا۔ اور وہ ہدایت پانے والے ہیں۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) مجھے لے گئے۔ یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں آئے جو شہر میں تھی۔ اچانک جہنم کو کھول دیا گیا جو غلیچوں کی طرح نظر آرہی تھی۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے جہنم کو کیسے پایا فرمایا گرم انگارے کی طرح۔ پھر مجھے واپس لائے ہم قریش کے قافلے کے پاس سے گزرے جو فلاں جگہ پر تھا اور ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا۔ اور فلاں نے اس کو جمع کیا ہوا تھا۔ میں نے اس کو سلام کیا، انکے بعض نے کہا یہ محمد ﷺ کی آواز ہے۔ پھر میں اپنے اصحاب ؓ کے پاس صبح سے پہلے جگہ میں پہنچ گیا۔ میرے پاس ابوبکر ؓ آئے اور فرمایا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے رات کہاں گزاری ؟ ہم نے آپ کو اپنی جگہ میں تلاش کیا۔ میں نے کہا کیا تجھے معلوم نہیں۔ کہ میں آج رات بیت المقدس سے ہو کر آیا ہوں پوچھا یا رسول اللہ ﷺ وہ ایک ماہ کا سفر ہے مجھ سے (واقعہ) بیان کیجئے۔ میں نے کہا صراط (یعنی راستہ) کو کھول دیا گیا۔ گویا کہ میں اس کیطرف دیکھ رہا ہوں۔ مجھ سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ مگر یہ کہ تم کو میں خود نہ بتاوں۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور مشرکین نے کہا ابن ابی کبثہ کی طرف دیکھو وہ خیال کرتا ہے کہ وہ بیت المقدس سے ہو کر آیا ہے آج رات۔ میری بات کی سچائی کی یہ نشانی ہے میں تم کو بتاوں گا کہ میں تمہارے ایک قافلے کے پاس سے گزرا۔ ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا۔ بس فلاں شخص نے قافلے کو جمع کیا ہوا تھا۔ وہ فلاں فلاں جگہ سے چلتے ہوئے فلاں دن تمہارے پاس پہنچے گا۔ اس قافلے کے آگے ایک گندمی اونٹ ہے اس پر ایک کالی رنگ کا آدمی سوار ہے۔ ؛ اور اس پر دو بوریاں لادی گئیں تھیں۔ جب فلاں دن آیا ان کو دیکھنے کے لئے قوم اونچی جگہ پر چلی گئی یہاں تک کہ دوپہر کے وقت قافلہ آپہنچا۔ اس کے آگے وہی اونٹ تھا جو رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا۔ 10:۔ احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابن مردویہ نے قتادہ کے طریق سے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ مالک بن صعصعۃ ؓ نے اس کو بیان فرمایا کہ رسول اللہ نے اپنے رات کے سفر کرنے کو بیان فرمایا۔ کہ میں حطیم میں تھا۔ اور کبھی قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ میں حجر میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک میرے میرے پاس ایک آنے والا آیا جو اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ان تین کے درمیان ولا ہے۔ وہ میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چیز دیا۔ یعنی اس کے گلے کے گھڑے سے لے کر اس کے بالوں تک۔ پھر میرے دل کو باہر نکالا اور سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ میرے دل کو زمز کے پانی سے دھویا گیا۔ اور اس میں ایمان اور حکمت کو بھر دیا گیا پھر اس کو اپنی جگہ پر لوٹا دیا گیا۔ پھر ایک سفید جانور لایا گیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ جس کو براق کہا جاتا تھا۔ اس کا ایک قدم اس کی نگاہ کی حد تک پڑتا تھا۔ میں اس میں سوار ہوا۔ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) لے چلے یہاں تک کہ مجھے آسمان دنیا پر لے آئے ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا۔ جب میں اندر پہنچا وہاں آدم (علیہ السلام) تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں۔ ان کو سلام کرو میں نے سلام کیا انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا۔ پھر فرمایا خوش آمدید صالح بیٹا اور صالح نبی پھر اوپر چڑھے یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان پر لایا گیا۔ دروازہ کھولنے کو کہا پوچھا کون ہے ؟ فرمایا جبرائیل ہوں۔ فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں۔ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں ! انہوں نے کہا خوش آمدید۔ اور ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا گیا۔ جب میں پہنچا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) تھے۔ اور وہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ دونوں کون ہیں ؟ فرمایا یہ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ان کو سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا مرحبا صالح بھائی اور صالح نبی، پھر اوپر چڑھے۔ یہاں تک کہ تیسرے آسمان پر آئے دروازہ کھولنے کو کہا پوچھا کون ہیں ؟ فرمایا جبرائیل ہوں، فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں انہوں نے کہا خوش آمدید اور ان ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا جب میں پہنچا تو وہاں یوسف (علیہ السلام) تھے، میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا خوش آمدید ہو صالح بھائی کو اور صالح نبی کو پھر اوپر چڑھے یہاں تک کہ چوتھے آسمان پر آئے دروازہ کھولنے کو کہا پوچھا کون ہیں ؟ فرمایا جبرائیل ہوں، فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں انہوں نے کہا خوش آمدید اور ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا جب میں پہنچا تو وہاں ادریس (علیہ السلام) تھے میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا فرمایا خوش آمدید ہو صالح بھائی کو اور صالح نبی کو پھر اوپر چڑھے یہاں تک کہ پانچویں آسمان پر آئے دروازہ کھولنے کو کہا پوچھا کون ہیں ؟ فرمایا جبرائیل ہوں، فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں انہوں نے کہا خوش آمدید اور ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا جب میں پہنچا تو وہاں ہارون (علیہ السلام) تھے میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا خوش آمدید ہو صالح بھائی کو صالح نبی کو پھر اوپر چڑھے یہاں تک کہ چھٹے آسمان پر آئے دروازہ کھولنے کو کہا پوچھا کون ہیں ؟ فرمایا جبرائیل ہوں، فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں انہوں نے کہا خوش آمدید اور ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا جب میں پہنچا تو وہاں موسیٰ (علیہ السلام) تھے میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا خوش آمدید ہو صالح بھائی کو صالح نبی کو جب میں آگے چلا تو وہ رونے لگے، پوچھا گیا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ یہ نوجوان جو میرے بعد بھیجا گیا (یعنی محمد ﷺ اسکی امت جنت میں زیادہ داخل ہوگی بنسبت میری امت کے۔ پھر اوپر چڑھے یہاں تک کہ ساتوں آسمان پر آئے دروازہ کھولنے کو کہا پوچھا کون ہیں ؟ فرمایا جبرائیل ہوں، فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے۔ فرمایا ہاں انہوں نے کہا خوش آمدید اور ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا جب میں پہنچا تو وہاں باپ ابرہیم (علیہ السلام) تھے میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا خوش آمدید ہو صالح بیٹے کو صالح نبی کو۔ پھر میں سدرۃ المنتہی کی طرف بلند ہوا۔ اس کے بیر حجر کے گھوڑے کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح تھے۔ اور وہاں نہریں تھی جو اس کی جڑ سے نکل رہی تھیں، دو نہریں اندر تھیں اور دو نہریں باہر تھیں۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل ! یہ کیا نہریں ہیں ؟ فرمایا اندر کی تو جنت کی نہریں کی نہریں ہیں اور باہر والی نہریں وہ نیل اور فرات کی نہریں ہیں۔ پھر مجھے بیت المعمور کی طرف اٹھایا گیا۔ کہ جس میں ہر دن ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔ جب ان سے نکل جاتے ہیں پھر ان میں نہیں لوٹتے۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا۔ مجھ پر دونوں کو پیش کیا گیا۔ کہا گیا جس کو چاہو ان میں سے ایک کو لے لو۔ میں نے دودھ کو لے لیا۔ مجھ سے کہا گیا۔ آپ نے فطرت کو پالیا۔ اسی فطرۃ (یعنی دین اسلام) پر تو اور تیری امت رہے گی۔ پھر مجھ پر ہر دن میں پچاس نمازیں فرض کردی گئیں۔ میں اترا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں کے کہا ہر دن کی پچاس نمازیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تیری امت اس کو (ادا) نہیں کرسکے گی۔ اور میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں۔ اور میں بنی اسرائیل کے ساتھ سخت معاملہ کرچکا ہوں۔ فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کرو، میں اپنے رب کے پاس لوٹ کر آیا تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور میں نے اس کو بتایا جو کمی ہوئی تھی، فرمایا اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور اپنی امت کے لئے (مزید) تخفیف کا سوال کرو، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ فرمایا کہ میں برابر اپنے رب اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا جاتا رہا مجھ سے پانچ (ہر مرتبہ) نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ پانچ باقی رہ گئیں۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا پوچھا۔ کتنی نمازوں کا حکم ہوا ؟ میں نے عرض کیا ہر دن پانچ نمازیں۔ فرمایا آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکگا ہوں۔ اور میں بنی اسرائیل کے ساتھ سخت معاملہ کرچکا ہوں۔ پھر اپنے کے پاس لوٹ جاؤ۔ اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کرو، میں نے کہا میں اپنے رب کے پاس (باربار) حاضر ہوتا رہا یہاں تک کہ اب مجھے شرم آتی ہیں۔ اب میں ان نمازوں پر راضی ہوں اور ان کو تسلیم کرتا ہوں۔ اور آواز دی گئی اے محمد ﷺ میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا۔ اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ اور میں نے ایک نیکی کو دس کے برابر کردیا ہے (گویا ایک نماز کے بدلہ دس نمازوں کا ثواب ملے گا )
Top