بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
تفسیر : (1)” سبحن الذی اسری بعدہ لیلہ “ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ہر اس برے وصف سے جس کی برأت کی جائے بطور مبالغہ کے ۔ اس صورت میں سبحان بمعنی تعجب کے ہوگا ۔ ” اسریٰ بعبدہ “ اس کو سیرا کرائی ۔ اسی سے بولا جاتا ہے ” سری بہ “ عبد سے مراد محمد ﷺ ہیں ۔ ” من المسجد الحرام “ اس سیر کی ابتداء مکہ سے ہوئی۔ حضرت قتا دہ ؓ سے مروی ہے کہ انس نے مالک بن صعصعہ سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں مسجد میں حرام میں حجرا سود کے قریب نیند اور بیداری کی حالت میں درمیان میں تھا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) براق لے کر آئے ۔ پھر آپ ﷺ نے معراج والی حدیث بیان کی ۔ اور بعض حرات کا قول ہے کہ اُم ہانی بنت ابی طالب کے گھر سے معراج ہوئی ۔ اس صورت میں ” من المسجد الحرام “ سے مراد حرام ہوگا ۔ مقاتل کا بیان ہے کہ معراج آپ ﷺ کی ایک سالہ جرت سے پہلے ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ رجب میں ہوئی اور بعض نے کہا کہ رمضان میں ہوئی ۔ ” الی المسجد الاقصیٰ “ اس سے مراد بیت المقدس ہے اور اس کو مسجد اقصیٰ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ ان تمام مساجد سے دور ہے جن کی زیارت کی جاتی ہے اور بعض نے کہا کہ اقصیٰ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ مسجد الحرام سے دور ہے ۔ ” الذین بارکنا حولہ “ تہروں ، درختوں اور پھولوں کے ساتھ برکت دی اور مجاہد کا قول ہے اس کو مبارک اس لئے کہتے ہیں کہ یہ انبیاء کے ٹھہرنے کی جگہ ہے اور فرشتوں کے اترنے کی جگہ ہے اور اس میں ایک چٹا ہے اور اسی کے گرد قیامت کے دن لوگوں کو جمع کیا جاتا ۔ ” لنر یہ من آیاتنا “ اس کی عجیب قدرتوں کو دیکھے ۔ وہاں انبیاء کرام علیوم السلام اور ہماری بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھے ۔ د ’ انہ ھو السمیع البصیر “ سمیع کو اس لئے ذکر کیا کہ وہ ہماری دُعائوں کو خوب سننے والا ہے اور ان کو قبول کرنے والا ہے اور بصیر کو اس وجہ سے ذکر کیا کیونکہ وہ رات کے اندھیرے میں موذی اشیاء سے بچانے والا ہے ۔ واقعہ اسرائ : حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں میں نہیں کہتی کہ آپ ﷺ کو جسد کے ساتھ معراج کرائی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو روح کے ساتھ سیر کرائی اور اکثر مفسرین کے نزدیک آپ ﷺ کو معراج کرائی گئی جسم کے ساتھ حالت بیداری میں ۔ اس کے متعلق بہت ساری احادیث متواتر دلالت کرتی ہیں ۔ امام بغوی رحمۃ اللہ طویل سند کے ذکر کرنے کے بعد ایک روایت لائے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھ تک بعض احادیث پہنچی ہیں ۔ ابو ذر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں مکہ میں تھا تو میرے گھر کی چھت کھولی گئی ، پھر جبرئیل (علیہ السلام) آئے ، پھر انہوں نے میرے سینے کو چیرا ، پھر اس کو زمزم کے پانی کے ساتھ دھویا ، پھر ایک سونے کا طشت لایا گیا ، جو حکمت و ایمان سے بھرا ہوا تھا اس کے لیے میرے سینے کو فارغ ک دیا گیا ، پھر واپس میرے دل کو اپنی جگہ رکھ دیا گیا ۔ مالک بن صعصعہ کا قول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لیلۃ اسریٰ کے متعلق بیان کیا اور فرمایا کہ حطیم کے درمیان میں تھا اور کہا کہ میں حجر اسود کے درمیان نیند اور بیداری کی حالت میں تھا اور بعض نے ذکر کیا کہ دو آدمیوں کے درمیان تھے تو ایک سونے کا طشت تھا اس میں ایمان اور حکمت بھری ہوئی تھی ۔ انہوں نے میرے سینے کو پیٹ تک چاک کیا اور اس سے دل کو نکالا ، پھر اس کو دھویا ، پھر اس کو حکمت سے بھر دیا اور بعض نے کہا کہ میرے دل کو گرہ لگائی پھر اس کو لوٹایا گیا ۔ واقعہ معراج میں امامت انبیاء علہیم السلام کا واقعہ۔ سعید وہشام کا قول ہے پھر بطن کو پانی کے ساتھ دھویا ، پھر سینے کو ایمان اور حکمت سے بھر دیا ، پھر براق لائی گئی ، وہ سفید جانور تھا، گدھے سے بڑا خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا ایک قدم نظر جہاں پڑتی تھی وہاں جاکر رکتا تھا۔ میں اس پر سوارہوا ، میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ آیا یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گیا اور میں نے حلقے کے ساتھ سواری کو باندھا جیسے انبیاء کرام (علیہم السلام) اپنی اپنی سواریاں باندھتے تھے ۔ فرماتے ہیں کہ ہم پھر مسجد میں داخل ہوئے اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں ۔ پھر وہاں سے نکلے تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) میرے پاس دو برتن لے آئے ۔ ان میں ایک برتن کے اندر شراب تھی اور دوسرے برتن میں دودھ تھا۔ آپ ﷺ نے دودھ کے برتن کو اختیار کیا۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا ۔ آسمان دنیا پر آدم (علیہ السلام) کی ملاقات پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) وہاں سے چلے یہاں تک کہ آسمان دنیا پر پہنچ گئے، آسمان کا دروازہ کھلوایا گیا ۔ کہا گیا آپ کون ہیں ؟ فرمایا جبرئیل ! ( علیہ السلام) پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد (ﷺ) ہیں ۔ کہا گیا کہ آپ کو ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا جی ہاں ۔ پھر کہا گیا خوش آمدید ہو آپ پر اور جو آپ کے ساتھ آئے ہیں پھر دروازہ کھولا گیا ۔ دیکھا تو حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں ۔ مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کے آد م باپ ہیں ۔ آپ ﷺ نے ان پر سلام بھیجا ۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا خوش آمدید ہو نبی صالح اور ابن صالح پر۔ حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث میں ہے کہ جب ہم آسمان دنیا پر تشریف لے گئے تو ناگہاں ایک شخص جو دیکھا جس کے دائیں بائیں ذریت تھی۔ جب وہ شخص دائیں طرف دیکھتے تو وہ خوشی سے مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو وہ رو پڑتے۔ فرمایا خوش خبری ہو نبی صالح اور ابن صالح کو ۔ میں نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ آپ کے والد آدم (علیہ السلام) ہیں اور جو ان کے دائیں بائیں دیکھ رہے ہو یہ ان کی ذریت ہے۔ ان کے دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانب والے دوزخی ہیں ۔ جب وہ جنتیوں کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب ناروالوں کو دیکھتے ہیں تو غمگین ہوتے ہیں۔ دوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) سے ملاقات پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) دوسرے آسمان کی طرف چڑھے۔ دوسرے آسمان کے دروازے کو کھلوایا گیا ، کہا گیا ، آپ کون ہیں ؟ فرمایا جبرئیل ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ، کہا گیا کہ کیا ان کی طرف آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا جی ہاں۔ کہا گیا خوش آمدید ہو ، کیا خوب ہے آنے والا پھر دروازہ کھولا گیا ۔ جب دوسرے آسمان پر پہنچے تو اس میں حضرت یحییٰ بن زکریا اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) تھے، دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ فرمایا یہ یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) ہیں ۔ ان کو سلام کیا ، دونوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر ان دونوں پیغمبروں نے کہا خوش آمدید ہو ، نیک بھائی اور نیک نبی پر۔ تیسرے آسمان پر یوسف (علیہ السلام) کی ملاقات پھر وہاں سے تیسرے آسمان کی طرف چڑھے ، اس کو کھلوایا گیا ، کہا گیا آپ کون ہیں ؟ فرمایا جبرئیل ، پھر کہا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد (ﷺ) کہا گیا آپ کو ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا جی ہاں۔ پھر کہا گیا آپ پر خوش آمدید اور آنے والے پر بھی ۔ آسمان کا دروازہ کھولا گیا ، اوپر دیکھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں ۔ ان کو حسن کا ایک حصہ عطا کیا گیا تھا۔ فرمایا یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں ، ان پر سلام بھیجا گیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا ، خوش آمدید صالح بھائی اور صالح نبی پر۔ چوتھے آسمان پر ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات پھر وہ میرے ساتھ چوتھے آسمان کی طرف چڑھے ، اس کا دروازہ کھلوایا گیا ، پوچھا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرئیل ہوں ۔ پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ، پوچھا گیا ان کی طرف آپ کو بھیجا گیا ، جواب دیا جی ہاں ۔ کہا گیا ان کا آنا بہت اچھا آنا ہے ، دروازہ کھولا گیا ، جب اوپر پہنچے تو دیکھا حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں ۔ فرمایا یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں ان پر سلام بھیجا تو انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید ہو صالح بھائی اور نبی صالح پر ۔ پانچویں آسمان پر ہارون (علیہ السلام) کی ملاقات پھر وہ پانچویں آسمان کی طرف چڑھے ، پھر اس کو کھلوایا گیا ، پھر پوچھا گیا آپ کون ہیں ؟ فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) ، پھر پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا محمد (ﷺ) پھر پوچھا گیا آپ کو ان کی طرف بھیجا گیا ، فرمایا جی ہاں۔ کہا گیا ان کا آنا بہت اچھا آنا ہے۔ جب ان سے آگے بڑھے تو دیکھا حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے ۔ کہا گیا کہ یہ حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں ، ان کو سلام کیا گیا ، انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا خوش آمدید ہو نیک بھائی اور نبی صالح پر۔ چھٹے آسمان پر موسیٰ (علیہ السلام) کی ملاقات پھر وہ چھٹے آسمان پر چڑھے ، اس کو کھلوایا گیا ، کہا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا ، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ، کہا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا محمد (ﷺ) ۔ پھر ان سے کہا گیا کہ آپ کو ان کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا جی ہاں ، پھر کہا گیا ان کا آنا بہت اچھا آنا ہے، ان کے لیے دروازہ کھولا گیا ، جب آسمان پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ۔ فرمایا یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ان پر سلام بھیجا گیا ، انہوں نے بھی مجھ پر سلام بھیجا ، ان کے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا خوش آمدید ، نبی صالح اور بھائی صالح پر ، فرمایا جب ان سے آگے بڑھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رونے لگے ، ان سے کہا گیا آپ کو کس چیز نے رلایا ہے ، فرمایا کہ میں اس بات پر روتا ہوں کہ ان کو میرے بعد بھیجا گیا لیکن ان کی زیادہ امت جنت میں جائے گی میرے امت سے۔ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات پھر ساتویں آسمان کی طرف چڑھے ، اس کو کھلوایا گیا ، پوچھا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرئیل ہوں ، کہا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد (ﷺ) کہا گیا آپ ﷺ کی طرف آپ کو بھیجا گیا تھا جواب دیا جی ہاں، کہا گیا خوش آمدید ہو ان کا آنا بہت اچھا آنا ہے، جب آپ آسمان پر چڑھے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا، فرمایا یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں ۔ انہوں نے ہم پر سلام کیا ہم نے بھی ان کو سلام کیا ، سلام کا جواب دیا گیا ، پھر فرمایا خوش آمدید نبی صالح اور ابن الصالح پر۔ آگے بیت العمور کا سفر پھر مجھے اٹھا لیا گیا ، بیت معمور کی طرف ، میں نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا ، جواب دیا کہ یہ بیت معمور ہے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کے گرد طواف کرتے ہیں جو ایک دن طواف کرچکے ہیں وہ دوبارہ طواف نہ کرسکیں گے۔ ثابت بن انس کی روایت میں ہے کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس تھا کہ وہ بیت معمور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اس بیت معمور میں ہر ایک روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں اور جو طواف کرچکے ان کی قیامت تک دوبارہ باری نہیں آئے گی ۔ فرماتے ہیں کہ پھر ہمیں سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا ۔ اس کے بیر مکہ کے مٹکوں کے برابر تھے اور ان کے ورق ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے۔ انہوں نے ڈھانپا اللہ کے حکم سے جس طرح ڈھانپا وہ ایسی خلقت تھی کہ کسی کے بس و طاقت میں نہیں کہ اس کی صفات بیان کرے۔ اس کی جڑ میں چار نہریں تھیں دو باطن تھیں اور دو ظاہر تھیں ۔ میں نے کہا اے جبرئیل ! ( علیہ السلام) یہ کیا ہے جو باطن نہریں ہیں و دو جنتی ہیں اور ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں ، پھر میری طرف وحی کی گئی جو وحی اللہ نے بھیجنی تھی۔ پچاس نمازوں کا حکم تخفیف کرتے کرتے پانچ نمازوں کا حکم باقی رہا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں دن و رات میں فرض کیں ۔ پھر میں واپس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ، میں نے کہا پچاس نمازیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اپنے رب سے سوال کیجئے کہ وہ اس میں تخفیف کرے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی کیونکہ بنی اسرائیل کو آزمایا گیا اور اس کی خبر آپ ﷺ کو دی گئی ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں پھر اللہ رب العزت کی طرف لوٹا اور کہا کہ اے میرے رب ! اس میں تخفیف کیجئے ۔ اللہ رب العزت نے ان سے پانچ نمازیں کم کردیں ۔ پھر واپس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لوٹے اور کہا کہ پانچ نمازیں کم کی گئیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی ، واپس اللہ تعالیٰ کے پاس جائو اور مزید تخفیف کی درخواست کرو ، فرمایا کہ میں لگاتار اللہ رب العزت اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اے محمد ! ( ﷺ) آپ پر پانچ نمازیں فرض کردی گئیں دن و رات اور ہر نماز کا اجر وثواب دس نمازوں کے اجر وثواب کے برابر ہے۔ گویا پانچ نمازیں ادا کریں گے تو پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا ۔ اب اس میں کوئی ردو بدل نہیں ہوگا ، لہٰذا جو شخص ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن اس کو عمل میں نہیں لائے گا تو اس کو ایک نیکی کا ثواب لکھ دیا جائے گا اور اگر اس نیکی کو کرے گا تو اس کے بدلے میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دیا جائے گا اور اگر کسی برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے بدلے میں کچھ بھی نہیں لکھا جائے گا اور اگر اس برائی پر عمل کیا تو ایک ہی لکھ دی جائے گی۔ فرمایا کہ میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی کہ ( پانچ نمازروں کا حکم ہوا ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ پھرجائیں اپنے رب سے اس کے بارے میں تخفیف فرمائیں تو میں نے کہا کہ مجھے اب اپنے رب سے سوال کرتے ہوئے حیا آتی ہے۔ لیکن میں اب اسی پر راضی ہوں اور اسی کو تسلیم کرتا ہوں ۔ جب میں وہاں سے آگیا تو آواز دینے والے نے کہا کہ ہم نے اپنا فریضہ پورا کرلیا اور اپنے بندوں پر اس کی تخفیف کی ، پھر مجھے جنت کی سیر کرائی ۔ اس کے پیالے موتی کے اور جنت کی مٹی مشک جیسی ہے۔ ابن شہاب سے روایت ہے کہ مجھے ابن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس ؓ اور ابو دجانہ انصاری ؓ دونوں فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر میں ان کی طرف ( آسمان) پر چڑھا۔ یہاں تک کہ مجھے قلمیں چلنے کی آواز آئی ۔ ابن حزم اور انس ؓ کا قول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں ۔ معمر نے قتادہ سے روایت کیا ، وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میرے پاس براق لائی گئی جس کی لگام اور زین بھی تھی ، اس پر مجھے سوار کیا گیا اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا سوار ہوجایئے کیونکہ لوگوں میں سے کوئی بھی ایک اس پر سوار نہیں ہوتا مگر جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت و اکرام والا ہو اور اس سوار ی سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔ ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ہم بیت المقدس پہنچے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے کہا ، اس نے پتھر میں سوراخ کردیا اور اس پر براق کو باندھ دیا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ معراج کے دن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا ان کی صفات یہ بیان کیں کہ وہ ایک شریف الطبع مرد معلوم ہوتے تھے لیکن ان کے چہرے میں اضطراب معلوم ہوتا تھا۔ اور ان کا سر مبارک ایسا تھا جیسے قبیلہ شنوء کا آدمی ہو ۔ فرمایا میں نے اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کی ۔ ان کی یہ صفات بیان کیں اور فرمایا ان کا چہرہ سرخ تھا ایسے جیسے کہ انار نچوڑ ہوا اور میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا اور میں ان کے مشابہ اولاد میں سے ہوں ۔ فرمایا کہ میرے پاس دو برتن لائے گئے ، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی ۔ مجھے کہام گیا ان دونوں میں سے جو چاہو لے لو ، تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور اس کو پی لیا ۔ پھر مجھے کہا گیا کہ آپ نے اپنی فطرت کو لیا ہے، اگر آپ شراب کو اختیار کرتے تو آپ کی امت گمراہی میں مبتلا ہوجاتی۔ حضرت عکرمہ ابن عباس ؓ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اس فرمان کے بارے میں ” وما جعلنا الرویا التی اربناک الا فتنۃ للناس “ فرمایا یہ وہ خواب ہے جس کو آپ ﷺ نے دیکھا جس میں آپ ﷺ کو معراج کرائی گئی مسجد حرام سے بیت المقدس تک اور فرمایا کہ شجرۃ ملعونۃ سے مراد قرآن میں شجرۃ زقوم ہے۔ اسی طرح امام بغوی (رح) دوسری روایت لائے ہیں۔ شریک بن عبد اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے سنا ، فرماتے ہیں کہ جس دن آپ ﷺ کو شب معراج کرائی گئی اس وقت آپ ﷺ مسجد حرام میں موجود تھے ، ان کے پاس تین شخص آئے آپ کے پاس وحی آنے سے پہلے ، اور آپ ﷺ مسجد حرام میں سو رہے تھے ، ان میں سے ایک شخص نے کہا ، کہ وہ کیسا ہے ، ان تین افراد میں سے درمیان والے نے کہا کہ وہ سب سے بہتر ہیں اور پھر تیسرے شخص نے کہا اس خیر کو لے لو ، اس رات انہوں نے کچھ نہ دیکھا یہاں تک کہ دوسری رات آگئی جس رات انہوں نے نبی کریم ﷺ کے دل کو دکھایا انہوں نے آپ ﷺ کی آنکھوں کو دیکھا کہ وہ سو رہی ہیں نہ کہ ان کا دل ، اسی طرح انبیاء کرام (علیہم السلام) کی آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے۔ پھر انہوں نے آپس میں کوئی کلام نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے زمزم کے کنویں کے پاس بٹھا دیا ۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کا سینہ ، ہنسلی کے گڑھے سے ناف تک چاک کیا اور اندرون صدر کو زمزم کے پانی سے دھویا ۔ حضرت انس ؓ نے معراج کی پوری حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آسمان دنیا میں پہنچے تو وہاں سے دو دریا نکلتے دیھے۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا یہ نیل و فرات ہیں ، دونوں کا سر چشمہ یہاں ہے۔ پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو آسمان میں لے چلے وہاں ایک اور دریا دیکھا جس پر موتی اور زبر جد کا محل بنا ہوا تھا۔ دریا میں ہاتھ مارا تو وہ یکدم خالص مشک بن گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا جبرئیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا یہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ حضرت انس ؓ نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا پھر آپ کو ساتویں آسمان تک لے جایا گیا جس کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں۔ یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے اور اللہ جبار رب العزت کا قرب ہوگیا ، اللہ رب العزت کچھ نیچے آئے یہاں تک کہ دو کمانوں کے فاصلے کے بقدر یا اس سے بھی زیادہ قریب ہوگیا اور ہر رات دن میں پانچ نمازوں کا حکم بذریعہ وحی دیا ۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) بار بار لوٹا کر آپ رب العزت کے پاس بھیجتے رہے۔ یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر بھی رو کر کہا محمد (ﷺ) میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس سے کم کا بہت تجربہ کیا ہے لیکن وہ اس سے بھی عاجز رہے اور ادائیگی کو چھوڑ بیٹھے اور آپ کی امت بنی اسرائیل کے مقابلے میں جسم و دل اور گوش و چشم کے اعتبار سے بہت کمزور ہے، آپ اپنے رب کے پاس لوٹ کر جائیے اور تخفیف کی درخواست کیجئے تا کہ وہ تخفیف کر دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلا م نے جتنی مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو درخواست تخفیف کی تلقین کی تھی ہر بار آپ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی طرف مشورہ طلب نظر سے دیکھتے تھے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ان کو نا مناسب نہیں خیال کرتے تھے۔ آخر پانچویں مرتبہ میں جب رسول اللہ ﷺ نے تخفیف کی دعا کی اور عرض کیا اے رب ! میری امت کے بدن بھی کمزور ہیں اور دل بھی اور گوش بھی تو ہمارے اپنے حکم میں تخفیف فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا محمد ! ( ﷺ) آپ نے عرض کیا میں حاضر ہوں اور سعادت اندوز ہوں ، اللہ نے فرمایا میرے ہاں حکم نہیں بدلاجاتاجی سے میں نے نوح محفوظ میں فرض کردیا ہے، ہر نیکی کا ثواب دس گنا مقرر ہے ، پس لوح محفوظ میں یہ پچاس نمازیں ہیں مگر تمہارے لیے پانچ ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلا م نے پھر رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جائیں اور تخفیف کی درخواست کریں حضور ﷺ نے فرمایا میں نے بار بار اتنی مرتبہ آمدورفت کی کہ اب مجھے رب سے تخفیف کا سوال کرتے شرم آتی ہے۔ اوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد آپ جب بیدار ہوئے تو مسجد حرام میں ہی تھے۔ اس حدیث کو اختصار کے ساتھ انہوں نے ہارون بن سعید ایلی سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے وہب سے اور انہوں نے سلیمان بن بلال سے نقل کیا ہے کہ ہمارے شیخ امام نے بیان کیا ہے کہ بعض علماء حدیث کا قول ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سوائے حدیث مذکور کے اور کوئی ایسی حدیث نہیں جس سے منامی معراج کا ثبوت ملتا ہو ۔ صرف یہی ایک حدیث ہے جس سے خواب کے اندر معراج ہونے کا ثبوت ملتا ہے لیکن اس روایت کا مدار شریک بن عبد اللہ پر ہے اور شریک منکر الحدیث ہے اور اس میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس معراج کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے وہ تو وحی آنے سے پہلے واقع ہوئی تھی اور اہل علم کے ہاں اس بات کا اتفاق ہے کہ معراج کا وحی کے بعد ذکر آیا وہ آغاز وحی سے بارہ سال کے بعد یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ” دنا فتدلی “ سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں ۔ ہمارے شیخ امامہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ اعتراض میرے نزدیک صحیح نہیں کیونکہ یہ خواب کا قصہ ہے کہ جس کو اللہ رب العزت نے وحی سے پہلے خواب دکھلا دیا تھا۔ اس کی تصدیق دوسری حدیث سے ہوتی ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ میں جاگ اٹھا دیکھا تو مسجد حرام میں ہوں ۔ پھر مجھے حالت بیداری میں آسمان کی طرف لے جایا گیا ہجرت سے ایک سال پہلے مجھے معراج کرائی گئی ۔ اس کو مزید محقق کرنے کے لیے ہجرت سے ایک سال پہلے اللہ نے بیداری کی حالت میں آپ کو معراج کرا دی جس طرح حدیبیہ کے سال یعنی چھ ہجری میں آپ کو فتح مکہ دکھائی گئی تھی پھر 8 ہجری میں عالم ظاہر میں مکہ کی فتح عنایت کردی گئی ۔ اللہ عزوجل کا فرمان ” لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق “ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معراج سے واپس تشریف لائے اور مقام ذی طوی میں پہنچے تو فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) میری قوم والے اس کی تصدیق نہیں کریں گے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا ابوبکر ؓ آپ ﷺ کی تصدیق کریں گے اور وہ بڑے سچے ہیں۔ معراج کے واقعہ کی پہلے تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں یہ دونوں حضرات نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات کو مجھے لے جایا گیا اس کی صبح کو میں مکہ میں بیٹھا ہوا اپنے متعلق سوچ رہا تھا اور سمجھا ہوا تھا کہ میری قوم والے مجھے جھوٹا قرار دیں گے۔ ایک گوشہ میں الگ تھلگ غمگین بیٹھا ہوا تھا اتنے میں اس طرف سے ابو جہل کا گزر ہوا اور مذاق کے لہجے میں اس نے کہا کیا کوئی نئی چیز حاصل کی ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں مجھے آج رات لے جایا گیا تھا۔ ابو جہل نے کہاکہاں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیت المقدس کو ، ابوجہل بولا پھر صبح ہوئی تو تم ہمارے سامنے موجود تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ہاں ابو جہل انکار نہ کرسکا اس کو اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بات اسی پر نہ آپڑے ، کہنے لگا تم نے جو بات میرے سامنے بیان کی ہے کیا اپنی قوم والوں کے سامنے بھی بیان کرو گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ۔ ابو جہل نے کہا اے گروہ کعب بن لوی یہاں آئو ، آواز پر لوٹ ٹوٹ پڑے اور رسول اللہ ﷺ اور ابو جہل کے پاس آگئے ، ابو جہل بولا اب جو کچھ تم نے مجھے بیان کیا اپنی قوم سے بھی بیان کرو۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں مجھے آج رات لے جایا گیا ، لوگوں نے پوچھا کہاں ، فرمایا بیت المقدس کو۔ لوگوں نے کہا پھر صبح کو تم ہمارے سامنے بھی ہو ، فرمایا ہاں ۔ یہ سنتے ہی کچھ لوگ مذاق میں تالیاں بجانے لگ گئے اور کچھ لوگوں نے تعجب سے اپنا سر پکڑ لیا اور کچھ لوگ جو ایمان لا چکے تھے اور حضور ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرچکے تھے وہ اسلام سے پھرگئے اور ایک مشرک بھاگتا ہوا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اب آپ کا اپنے ساتھی کے متعلق کیا خیال ہے ؟ تو وہ کہہ رہا ہے کہ رات مجھے بیت المقدس کو لے جایا گیا تھا۔ حضر ت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کیا انہوں نے ایسا کہا ، لوگوں نے کہا ہاں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا اگر انہوں نے ایسا کہا ہے تو سچ کہا ہے، لوگوں نے کہا کہ کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات میں بیت المقدس کو چلے گئے اور صبح سے پہلے بھی آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ، میں تو ان کی اس سے بھی بڑی تصدیق کرتا ہوں کہ ان کے پاس جو صبح و شام آسمان سے خبریں آتی ہیں تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسی لیے کہا جانے لگا ۔ راوی کا بیان ہے کہ ان لوگوں میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو بیت المقدس جا چکے تھے ، انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے بیت المقدس کا بیان کرسکتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے بیت المقدس کی تفصیل بیان کرنی شروع کردی اور برابر بیان کرتا رہا یہاں تک کہ بعض حالات کا مجھ پر اشتباہ ہوگیا تو فوراً نظروں کے سامنے سے پردے ہٹا دیئے گئے اور بیت المقدس میری نظروں کے سامنے آگیا اور عقیل کے گھر سے بھی قریب لا کر اس کو رکھ دیا گیا اور میں مسجد کو دیکھ دیکھ کر بیان کرنے لگا ، وہ لوگ کہنے لگے بیشک بیت المقدس کی جو حالت تم نے بیان کی ہے وہ صحیح ہے ۔ پھر بولے محمد ! (ﷺ) ہمارے قافلے کی کچھ خبر بھی بیان کرو ، ہمارے لیے وہ بہت ہی اہم ہے تم نے اس کو کہیں دیکھا تھا، فرمایا ہاں ۔ فلاں قافلے کی صورت مقام روحاء میں میری نظر کے سامنے آئی تھی۔ اس کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا ، لوگ اس کی تلاش میں تھے ان کے پڑائوپر واپس آئے تھے تو ان کو پیالے میں پانی ملا تھا، لوگوں نے کہا یہ ایک نشانی ہے۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرما دیا کہ میں فلاں قبیلہ والوں کے قافلے کے پاس سے گزرا تھا فلاں فلاں دو آدمی ایک اونٹ پر سوار تھے، یہ واقعہ مقام ذی مرکا ہے۔ مجھے دیکھ کر اونٹ ان دونوں سواروں سمیت بدکا ، ان دونوں شخصوں سے دریافت کرلینا ۔ لوگوں نے کہا یہ بھی ایک نشانی ہے حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا میں تنعیم جگہ پر اونٹ والوں کی طرف سے گزرا تھا، لوگوں نے کہا ان کی گنتی کیا تھی ، سامان پر جو لدا ہوا تھا وہ کیا تھا ؟ ان کی ہیئت کیا تھی ؟ فرمایا مجھے ان باتوں کی طرف توجہ نہ تھی ۔ پھر مقام حرورا میں وہ مکمل شکل کے ساتھ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے، ان کی ہیئت ایسی ایسی تھی اور فلاں فلاں لوگ ان کے ساتھ تھے اور ایک خاکستری رنگ کا اونٹ ان کے آگے آگے تھا جس پر دو بوریاں سلی ہوئی لدی ہوئی تھیں ۔ طلوع آفتاب کے وقت وہ قافلہ تمہارے سامنے آجائے گا ۔ لوگوں نے کہا یہ بھی ایک نشانی ہے ، اس گفتگو کے بعد وہ لوگ فوراً دوڑے ہوئے گھاٹی پر پہنچے اور وہیں بیٹھ کر طلوع آفتاب کا انتظار کرنے لگے تا کہ اگر قافلہ نہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا قرار دے سکیں ۔ انتظار ہی میں تھے کہ کسی نے اچانک کہا یہ آفتاب نکل آیا اور فوراً دوسرا آدمی بولا اور یہ اونٹ بھی سامنے آگئے جن کے آگے آگے خاکستری رنگ کا اونٹ ہے اور فلاں فلاں لوگ قافلے میں موجود ہیں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ لوگ ایمان نہیں لائے اور کہنے لگے یہ بلا شبہ کھلا ہوا جادو ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں حجر اسود کے پاس موجود تھا اور قریش میرے رات کے جانے کے متعلق دریافت کر رہے تھے ، انہوں نے بیت المقدس کے متعلق بھی مجھ سے پوچھا تھا جو مجھے یاد نہیں تھا اس کی وجہ سے مجھے ایسی بےچینی ہوئی تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی لیکن اس وقت اللہ بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے لے آیا ۔ اب جو سوال بھی مجھ سے کرتے تھے میں دیکھ کر اس کو بتادیتا تھا ، میں نے انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت کے ساتھ بھی اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے نماز پڑھے رہے ہیں ، وہ چھریرے بدن اور گھنگریالے بالوں والے شخص تھے ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے قبیلہ شنوء کا کوئی آدمی ہو ۔ ان کی مشابہت عروۃ بن مسعود ثقفی میں سب سے زیادہ ہے۔ میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ھڑے نماز پڑھتے دیکھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا تمہارا ساتھی ہے۔ پھر نماز کا وقت آگیا تو میں نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت کی نماز سے فارغ ہوا تو کسی کہنے والے نے کہا محمد ! (ﷺ) یہ مالک داروغہ دوزخ ہیں ، ان کو اسلام کرو ، میں نے مالک کی طرف منہ موڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہی مجھے پہلے سلام کیا۔
Top