بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ہے (عجز و درماندگی کے عیب سے) وہ (ذات) جو لے گیا اپنے بندے (یعنی پیغمبر اسلام) کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو ہم نے (بڑی) برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے کچھ اپنی نشانیاں دکھائیں (اور اسے بعض اسرار غیب معلوم ہوں ورنہ) حقیقت یہ ہے کہ سننے اور دیکھنے والا تو وہی ( اللہ) ہے۔
[1] مسجد اقصیٰ یعنی دور کی مسجد۔ مراد ہے بیت المقدس جو مکہ سے بہت دور فلسطین کے شہر یروشلم میں ہے۔ [2] برکت کے تحت میں مادی و روحانی ہر قسم کی برکتیں آگئیں۔ وہاں کی سرزمین کی شادابی مادی برکت کی مثال ہوئی اور انبیاء کرام کا کثرت سے اس سرزمین سے اٹھنا اور اسی کی خاک میں مدفون ہونا اس کی روحانی برکتوں کو واضح کرتا ہے۔ [3] ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے نبی ﷺ کو یہ واقعہ پیش آیا جو عام طور پر معراج کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاملہ سے مقصود یہ تھا کہ آپ اللہ کی نشانیوں کا عینی مشاہدہ کرلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ وحی کی تکمیل تھا۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ہی فرمایا کہ '' ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ''۔ یعنی اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ وحی بھی کوہ طور کے اعتکاف میں مکمل ہوا تھا اور انھیں کتاب شریعت دی گئی تھی۔ اس آیت میں صرف مسجد حرام یعنی بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ تک نبی اکرم ﷺ کے جانے کا ذکر ہے لیکن مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کا سفر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ کی حاضری کا مفصل ذکر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جو حدِّ تواتر تک پہنچ گئی ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا یا عالم خواب میں ؟ صرف روح پر طاری ہوا تھا یا جسم بھی اس میں شریک تھا ؟ اکثر صحابہ وتابعین اس طرف گئے ہیں کہ روح و جسم دونوں پر طاری ہوا تھا اور خود قرآن کے الفاظ بھی اس کے حق میں ہیں۔ آیت کی ابتداء ان الفاظ سے کہ '' وہ ذات عجز و درماندگی سے پاک ہے '' خود بتارہی ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا غیر معمولی واقعہ تھا، ورنہ اگر یہ معاملہ خواب کا ہوتا تو اسے بیان کرنے کے لئے اس تمہید کی ضرورت نہ ہوتی۔ نیز یہ الفاظ کہ '' راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا '' صریحاً جسمانی سفر پر دلالت کرتے ہیں۔ [4] یعنی معراج کی غایت یہ تھی کہ نبی ﷺ کو بعض اسرار غیب معلوم ہوں لیکن باایں ہمہ ان کا یہ علم محدود ہے۔ اصل میں عالم الغیب اللہ ہے اور اس کا علم درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ سمع و بصر کی خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ عام طور پر یہی دو ذریعے علم حاصل کرنے کے ہیں۔
Top