Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم آیات نمبر 1 تا 10 ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے محمد ﷺ کو لیلاً ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے، اور اسراء رات کے سفر کو کہتے ہیں، اور لَیْل کو ذکر کرنے کا فائدہ لیل کی تنکیر سے مدت سیر کی قلت کی طرف اشارہ ہے مسجد حرام یعنی مکہ سے مسجد اقصیٰ (یعنی) بیت المقدس تک (بیت المقدس کا نام مسجد اقصی) اس کے مسجد حرام سے دور ہونے کی وجہ سے ہے جس کے اطراف میں ہم نے پھلوں اور نہروں کے ذریعہ برکت رکھی ہے تاکہ ہم محمد ﷺ کو اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں بلاشبہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے یعنی وہ نبی ﷺ کے اقوال و افعال سے واقف ہے، تو اللہ نے آپ پر سفر شب کا انعام فرمایا جو انبیاء کی ملاقات اور آسمان پر آپ کے تشریف لیجانے اور عالم بالا کے عجائبات کو دیکھنے اور آپ کے اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے پر مشتمل تھا، خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جو حمار سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا، وہ اپنا قدم اپنے منتہائے نظر پر رکھتا تھا، چناچہ میں اس پر سوار ہوا تو وہ مجھے لے کر روانہ ہوا، یہاں تک کہ میں بہت المقدس پہنچ گیا اور میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا اور میں نے اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں باہر آیا تو جبرائیل میرے پاس دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ، میں نے دودھ پسند کیا، جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا آپ نے فطرت کو اختیار کیا، آپ نے فرمایا پھر مجھے آسمان دنیا (قریبی آسمان) کی طرف لے کر روانہ ہوئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دستک دی، ان سے معلوم کیا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ تو جواب دیا میں جبرائیل ہوں (پھر) سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں پھر معلوم کیا گیا کیا وہ مدعو ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا ہاں مدعو ہیں اس کے بعد ہمارے لئے دروازہ کھول دیا تو دفعۃ ہماری ملاقات (حضرت) آدم (علیہ السلام) سے ہوئی تو حضرت آدم نے مجھے مرحبا کہا اور مجھے دعاء خیر دی، پھر (جبرائیل) مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے کر چلے چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) نے دستک دی آپ سے سوال کیا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں، سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں معلوم کیا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلایا گیا ہے، چناچہ ہمارے لئے دروازہ کھولدیا، تو میں اچانک یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) دو خالہ زاد بھائیوں کے پاس تھا، دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعاء خیر دی، پھر جبرائیل مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر روانہ ہوئے تو جبرائیل نے دستک دی سوال کیا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں سوال کیا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جواب دیا ہاں بلائے گئے ہیں تو ہمارے لئے دروازہ کھولدیا گیا تو اچانک ہماری ملاقات یوسف (علیہ السلام) سے ہوئی (دیکھا تو) معلوم ہوا کہ انھیں (مجموعی حسن کا) نصف حصہ دیا گیا ہے، تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور مجھے دعاء خیر دی پھر (جبرائیل) مجھے چوتھے آسمان کی طرف لے کر چلے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دستک دی سوال کیا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں معلوم کیا وہ مدعو ہیں ؟ جواب دیا (جی ہاں) مدعو ہیں تو ہمارے لئے دروازہ کھولدیا تو اچانک ہماری ملاقات ادریس (علیہ السلام) سے ہوگئی تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعاء خیر دی، اس کے بعد ہم کو پانچویں آسمان کی طرف لے کر چلے تو جبرائیل نے دستک دی، سوال کیا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں پھر سوال کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد ﷺ ہیں پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلایا گیا ہے تو ہمارے لئے دروازہ کھولدیا تو اچانک ہماری ملاقات ہارون (علیہ السلام) سے ہوگئی تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعاء خیر دی پھر ہم کو چھٹے آسمان کی طرف لے کر چلے (وہاں پہنچ کر) جبرائیل نے دستک دی، سوال کیا گیا تم کون ہو ؟ جواب دیا میں جبرائیل ہوں پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں سوال کیا گیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلایا گیا ہے تو ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا، تو اچانک ہماری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور مجھے دعاء خیر دی، پھر ہم کو ساتویں آسمان کی طرف لے کر چلے (دروازہ پر) جبرائیل نے دستک دی سوال ہوا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا میں جبرائیل ہوں، سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد ﷺ ہیں سوال ہوا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا (ہاں) بلایا گیا ہے تو ہمارے لئے دروازہ کھولا، تو اچانک (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو وہ بیت معمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اور اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اس کے بعد دوبارہ ان کا نمبر نہیں آتا، پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے (تو دیکھا) کہ اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں اور اس کے پھل ٹھلیوں کے برابر ہیں، جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانپ لیا جس چیز (نور) نے ڈھانپ لیا تو اس درخت کی حالت ایسی بدل گئی کہ اللہ کی کوئی مخلوق اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتی، نبی (علیہ السلام) نے فرمایا اس کے بعد اللہ نے میری جانب جو چاہی وحی بھیجی اور میرے اوپر پچاس وقت کی نماز فرض فرمائی، چناچہ جب میں نیچے اترا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ سے دریافت فرمایا آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض فرمایا ؟ میں نے کہا یومیہ پچاس نمازیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا واپس جاؤ اور اللہ سے تخفیف کا سوال کرو اسلئے کہ آپ کی امت اس کی متحمل نہ ہوگی اور میں بنی اسرائیل کو خوب جانچ پرکھ چکا ہوں، نبی (علیہ السلام) نے فرمایا، کہ میں اپنے پروردگار کے پاس واپس گیا تو عرض کیا اے میرے پروردگار میری امت کیلئے تخفیف فرما دے تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردیں اس کے بعد پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو انہوں نے دریافت فرمایا آپ نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کی امت اس کی بھی متحمل نہ ہوگی اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کرو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے رب اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مسلسل چکر لگاتا رہا اور اللہ تعالیٰ مجھ سے ہر بار پانچ پانچ نمازیں کم کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد ﷺ رات اور دن میں یہ پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کے عوض دس نمازوں (کا ثواب) ہے اس طرح یہ کل پچاس نمازیں ہوئیں اور جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور ہنوز عمل نہیں کیا تو میں اس کیلئے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں اور اگر اس نے عمل کرلیا تو میں اس کیلئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہوں اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرتا ہے اور ہنوز اس کو عملی جامہ نہیں پہناتا تو میں اس کو نہیں لکھتا، اور اگر وہ اسے کرلیتا ہے تو میں ایک بدی لکھتا ہوں، اس کے بعد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور میں نے ان کو صورت حال کی اطلاع دی تو (پھر) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کے پاس جاؤ اور اپنی امت کیلئے تخفیف کا سوال کرو، اسلئے کہ آپ کی امت اس کی (بھی) متحمل نہ ہوگی، تو آپ نے فرمایا میں بار بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوا یہاں تک کہ مجھے شرم آنے لگی، (رواہ الشیخان، اور الفاظ مسلم کے ہیں) اور حاکم نے مستدرک میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا کی اور ہم نے اسے نبی اسرائیل کیلئے رہنما بنایا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا کہ اس کو اپنے معاملات سونپ دو ، اور ایک قراءت میں (تتخذوا) بطور التفات تاء فو قانیہ کے ساتھ ہے، أن زائدہ اور (لفظ) قول مضمر ہے اے ان لوگوں کی اولاد و کہ جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا وہ ہمارا بڑا شکر گذار بندہ تھا یعنی ہمارا بہت زیادہ شکر کرنے والا، اور ہرحال میں تعریف کرنے والا، اور ہم نے بنی اسرائیل سے وحی کے ذریعہ تورات میں صاف کہہ دیا تھا کہ تم ملک شام میں معاصی کے ذریعہ دو مرتبہ فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے یعنی بڑا ظلم کرو گے، اور جب ان دونوں موقعوں میں سے یعنی فساد کے دو موقعوں میں سے پہلا موقع آیا تو ہم نے تمہاری سرکوبی کیلئے اپنے ایسے بندے بھیج دئیے جو بڑی شدید قوت والے تھے (یعنی) حرب واخذ میں بڑے زور آور تھے تو وہ تمہاری تلاش میں (تمہارے) گھروں میں گھس گئے تاکہ وہ تم کو قتل و قید کریں، اور (اللہ کا یہ) وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا، اور ان لوگوں نے پہلا فساد (حضرت) زکریا (علیہ السلام) کو قتل کرکے برپا کیا تو اللہ نے ان کے اوپر جالوت اور اس کے لشکر کو بھیج دیا (جس نے) ان کو قتل کیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا اور بیت المقدس کو ویران کردیا، پھر ہم نے تمہارا جالوت کے قتل کے سو سال بعد ان پر دبدبہ اور غلبہ لوٹا دیا، یعنی (تمہارے دن پھیر دئیے) اور مال و اولاد سے تمہاری مدد کی اور ہم نے تم کو بڑے جتھے والا بنادیا اور ہم نے کہا اگر تم نے طاعت کے ذریعہ اچھے کام کئے تو اپنے فائدہ کیلئے اس لئے کہ ان کا اجر تم ہی کو ملے گا، اور اگر فساد کے ذریعہ تم نے برے اعمال کئے تو ان کی سزا بھی تمہارے لئے ہوگی، اور جب (فساد کا) دوسرا موقع آیا تو (پھر) ہم نے ان کو بھیج دیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں، یعنی وہ تم کو قتل و قید کے ذریعہ اتنا رنج دیں کہ جس کا اثر تمہارے چہروں پر ظاہر ہوجائے اور تاکہ وہ مسجد یعنی بیت المقدس میں داخل ہوجائیں اور اس کو ویران کردیں، یا جس طرح وہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور بیت المقدس کو ویران کردیا تھا، اور تاکہ وہ پوری طرح تہس نہس کردیں جس پر انہوں نے غلبہ حاصل کیا ہے اور انہوں نے (حضرت) یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کرکے دوسری مرتبہ فساد برپا کیا تو اللہ نے ان پر بخت نصر کو بھیج دیا تو اس نے ان میں سے ہزاروں کو قتل کردیا اور ان کی اولاد کو قید کرلیا اور بیت المقدس کو ویران کردیا، اور ہم نے کتاب (توراۃ) میں کہا دوسری مرتبہ کے بعد (بھی) اگر تم نے توبہ کرلی تو امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے پھر فساد برپا کیا تو ہم پھر سزادیں گے چناچہ محمد ﷺ کی تکذیب کرکے پھر فساد برپا کیا تو اللہ نے ان پر قریظہ کو قتل کرکے اور بنو نضیر کو جلاوطن کرکے اور ان پر جزیہ عائد کرکے محمد ﷺ کو ان پر مسلط کردیا، اور جہنم کو ہم نے کافروں کے لئے قید کانہ بنادیا بلاشبہ یہ قرآن راہ راست یعنی درمیانی اور ٹھیک راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کیلئے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انھیں اس بات کی خبر دیتا ہے کہ ہم نے ان کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ آگ ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : سُبْحانَ ، یہ فعل محذوف کا مصدر ہے ای سَبّحتُ اللہ سبحانًا۔ قولہ : لیلاً نصبٌ علی الظرفیۃ، یعنی لَیْلاً ، اسریٰ کا ظرف زمان ہے نہ کہ مفعول اسلئے کہ اسراء اور سَرا دونوں لازم ہیں۔ سوال : اسریٰ ، سیر فی اللیل کو کہتے ہیں پھر لیلاً کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب : یہ ہے کہ سیر فی اللیل اگرچہ اسریٰ میں داخل ہے مگر لیلاً کو نکرہ ذکر کرکے قلیل مدت کی طرف اشارہ ہے اور لیلاً کی تنوین یہاں قلت کے لئے ہے۔ قولہ : لِیُعدہٖ منہ، یہ مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ ہے اسلئے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت ہے یا اس لئے کہ اس وقت مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان کوئی مسجد نہیں تھی اسی وجہ سے اس کا مسجد اقصیٰ نام رکھا گیا۔ قولہ : کالقلال، قِلال، قُلَّۃ کی جمع ہے بمعنی مٹکا، ٹھلیا۔ قولہ : لاتتخذوا، أن مصدریہ ہے اور لام تعلیل مقدر ہے جسے شارح (رح) تعالیٰ نے ظاہر کردیا ہے لاتتخذوا حذف نون کے ساتھ منصوب ہے اور لانافیہ ہے اور یہ ترکیب یاء تحتانیہ کی صورت میں ہے اور تاء فوقانیہ کی صورت میں حذف نون کے ساتھ مجزوم ہوگا اور لا، ناہیہ ہوگا اور أن زائدہ ہوگا۔ قولہ : القول مضمر، ای مقولاً لھم لا تتخذوا، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ أن کا مفسرہ ہونا راجح ہے اسلئے کہ اٰتَیْنَا، قلنا کے معنی میں ہے جو کہ أن مفسرہ کیلئے شرط ہے۔ قولہ : نفیرًا یہ نَفرٌ کی جمع ہے، بمعنی خاندان، جمعیۃ۔ قولہ : وَاِنْ اَسَأتم فَلَھا۔ سوال : نقصان کے لئے صلہ میں علی استعمال ہوتا ہے حالانکہ یہاں لام استعمال ہوا ہے جو کہ نفع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جواب : یہ ازواج یعنی مقابلہ کے طور پر علی کی جگہ لام استعمال ہوا ہے۔ تفسیر و تشریح واقعہ اسراء و معراج کی تاریخ : واقعہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج آپ کی بعثت کے سات سال بعد پیش آیا اسلئے کہ حضرت خدیجہ کی وفات نماز کی فرضیت سے قبل ہوئی ہے اور حضرت خدیجہ کی وفات بعثت کے ساتویں سال ہے تمام روایات سے یہ تو بالاتفاق معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے پہلے پیش آیا حربی کہتے ہیں کہ واقعہ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے پہلے پیش آیا ہے اور عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں شب میں پیش آیا۔ واقعہ معراج : یہ سورة بنی اسرائیل شروع ہوئی اور یہیں سے پندرھواں پارہ شروع ہوتا ہے اس کی پہلی آیت میں واقعۂ اسراء کا غیر معمولی انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے، عرف عام میں اسی واقعہ کو معراج کہا جاتا ہے، معراج کا واقعہ آپ حضرات نے کتابوں میں پڑھا ہوگا اور سنا ہوگا، قرآن مجید میں اس کا ذکر بہت اجمال کے ساتھ آیا ہے، ہاں حدیثوں میں واقعہ کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے، اکثر روایات کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے قریباً ایک سال پہلے مکہ معظمہ میں پیش آیا تھا، معراج کی حقیقت اور نوعیت کو یوں سمجھنا آپ حضرات کیلئے کچھ آسان ہوگا کہ جس طرح اللہ کے حکم سے فرشتے آسمان سے زمین پر آتے ہیں اور یہاں سے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق پہنچ سکتے ہیں، اسی طرح ایک رات میں بلکہ رات کے بھی بہت تھوڑے سے حصے میں بس چند لمحات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت سے رسول اللہ ﷺ کو پہلے مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک اور پھر وہاں سے آسمانوں سے بھی اوپر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا اور اپنی قدرت کی خاص نشانیوں اور بہت سی غیبی حقیقتوں کا مشاہدہ کرایا اور یہ مشاہدہ کرانا ہی اس سفر معراج کا خاص مقصد تھا، اسی آیت میں فرمایا گیا ہے ” لِنُرِیَہٗ مِنْ آیتِنَا “ یعنی ہم نے یہ سفر اسی لئے کرایا کہ اپنے بندے محمد ﷺ کو اپنے عجائبات قدرت کا مشاہدہ اور نظارہ کرائیں۔ اس سفر کے دو حصے ہیں ایک مکہ مکرمہ کی مسجد حرام سے فلسطین کی مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک، اور دوسرا حصہ سفر کا ہے وہاں سے آسمانوں اور ان کے بھی اوپر سدرۃ المنتھیٰ تک، عرف عام میں اس پورے سفر کو معراج کہا جاتا ہے، اور اہل علم کی خاص اصطلاح میں پہلے حصہ کو ” اِسراء “ اور دوسرے کو معراج سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہاں سورة بنی اسرائیل کی اس پہلی آیت میں صرف پہلے حصہ کا ذکر ہے یعنی مسجد حرام سے بیت المقدس تک کے آپ کے سفر کا ذکر ہے، اور چونکہ یہ سفر ایسا تھا کہ عام عقلیں اس کو سمجھ نہیں سکتیں اور باور نہیں کرسکتیں کہ رات کے ذرا سے حصہ میں مکہ سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ہوگیا، اس لئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کی بےانتہا قدرت کی طرف اشارہ کرکے یہ صراحت کردی گئی کہ یہ محیر العقول سفر خود محمد ﷺ کا فعل نہیں تھا بلکہ اس خداوند قدوس کا فعل تھا جس کی قدرت کی کوئی حدو انتہا نہیں ہے اور جو ” فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد “ ہے، آیت کے سب سے پہلے لفظ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ “ سے اسی طرف اشارہ کیا گیا۔ اگر کہا جاتا کہ یہ سفر خود رسول اللہ ﷺ نے کیا جو اپنی ذات سے ایک بشر اور پیغمبر تھے تو شک و شبہ کی گنجائش تھی کہ ایک انسان اور آدم زاد کیلئے بظاہر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چند لمحوں میں حرم مکہ سے بیت المقدس تک اور وہاں سے آسمانوں کے بھی اوپر سدرۃ المنتہیٰ تک جائے اور واپس آجائے، لیکن اس آیت میں اس سفر معراج کو رسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل بتلایا گیا ہے، ارشاد فرمایا گیا ہے ” سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَیٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ “ (یعنی وہ خداوند قدوس ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے جو اپنے خاص بندے (محمد ﷺ کو رات کے ایک حصہ میں مکہ کی مسجد حرام سے اس مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک لے گیا جس کے آس پاس اور ماحول کو ہم نے اپنی خاص برکتوں سے مالا مال کیا ہے) قرآن مجید نے اس آیت میں اسراء اور معراج کو اللہ تعالیٰ کا فعل بتلا کر منکرین اور مخالفین کے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دے دیا اور ہم مسلمانوں کو بھی اس مشرکانہ گمراہی سے بچا دیا جس میں عیسائی مبتلا ہوئے، انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل اور ان کا تصرف سمجھا اور ان کو خدائی اور خداوندی صفات میں شریک مان لیا، اگر وہ حضرت مسیح کے ان معجزات کو خدا کا فعل اور خداوندی تصرف سمجھتے تو اس شرک میں مبتلا نہ ہوتے۔ ظاہری اور باطنی برکتوں کی سرزمین : اس آیت میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس کے ماحول اور اطراف کو برکتوں سے نوازا ہے، مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس جس سرزمین اور جس علاقہ میں واقع ہے اس کی سب سے بڑی برکت اور عظمت تو یہ ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائیل کے قریباً پورے سلسلہ کا مرکز دعوت و ہدایت اور ان کا قبلہ رہا ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنے جلیل القدر انبیاء و رسل اس میں مدفون ہیں، اس کے علاوہ یہ علاقہ دنیوی اور مادی برکتوں اور نعمتوں سے مالا مال ہے، بہترین آب و ہوا ہے، پھلوں کی پیداوار کے لحاظ سے تو گویا جنت کا ایک خطہ ہے، الغرض بیت المقدس کا یہ علاقہ دینی اور دنیوی، روحانی اور مادی ہر قسم کی برکتوں سے مالا مال ہے، ” بَارَکْنَا حَوْلَہٗ “ میں غالباً ان ہی سب برکتوں کی طرف اشارہ ہے۔ (واللہ اعلم) ۔ مقصدِ سفر : آگے اس سفر معراج کا مقصد اور اس کی غرض وغایت بیان فرمائی گئی ہے، ارشاد ہے ” لِنُرِیَہٗ مِنْ آیتِنَا “ یعنی ہم نے اپنے اس بندے محمد ﷺ کو یہ سفر اس لئے کرایا کہ اپنی قدرت کی کچھ خ اس نشانیاں اس کو کھلا دیں اور بعض ان حقائق کا مشاہدہ کرا دیں جو اس دنیا کے دائرہ سے باہر پردۂ غیب میں ہیں، آگے ارشاد فرمایا گیا ہے ” اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر “ یعنی وہ اللہ اپنی ذات سے سمیع وبصیر ہے سارا عالم غیب و شہادت ہر وقت اس کی نگاہ میں ہے، کائنات کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں ہے، اور وہ عالم غیب و شہادت کی ہر آواز سنتا ہے اور یہ سننا اور دیکھنا اس کی ذاتی صفت ہے (اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر) پھر یہ بھی اس کے اختیار میں ہے کہ اپنے جس بندہ کو اور جس مخلوق کو جو چاہے دکھلا دے اور جو آواز چاہے سنوا دے، اور جس بندے اور مخلوق کو وہ اپنی قدرت سے عالم غیب و شہادت کی کچھ چیزیں دکھلا دے یا سنوا دے تو وہ ہرگز اس کے برابر اور اس صفت میں اس کا شریک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ تو اپنی ذات سے سمیع وبصیر ہے اور یہ اس کی ذاتی اور قدیم ازلی صفت ہے ” اِنَّہٗ ھُو السَّمِیْعُ الْبَصِیْر “۔ یہاں تک سورت کی پہلی آیت کی تشریح ہوئی اور اسراء کا بیان اسی پر ختم ہوگیا، آگے دوسرا مضمون شروع ہے جس کا خاص تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ کچھ سوالات کچھ بحثیں : اسراء اور معراج سے متعلق کچھ مشہور سوالات اور اشکالات ہیں اور کچھ بحثیں ہیں جن کے بارے میں کتابوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، ایک اہم سوال اور بحث تو یہ ہے کہ حضور ﷺ کا اسراء اور معراج کا یہ سفر خواب تھا یا عالم بیداری کا واقعہ ؟ اسی طرح کا دوسرا سوال اور دوسری بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سفر صرف آپ کی روح کو کرایا تھا یا آپ کا یہ سفر جسم عنصری کے ساتھ ہوا تھا، مختصر لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ معراج روحانی تھی یا جسمانی ؟ صحابۂ کرام اور تابعین سے لے کر اس وقت تک امت کی غالب اکثریت بلکہ کہنا چاہیے کہ جمہور امت اس کے قائل ہیں کہ معراج خواب کی بات نہیں بلکہ عالم بیداری کا واقعہ ہے اور وہ صرف روحانی نہیں بلکہ جسم عنصری کے ساتھ ہوئی، حدیث کی عام روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور قرآن مجید کے الفاظ اور خاص اندازِ بیان سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے۔ اس آیت میں اسراء اور معراج کے اس واقعہ کو ” أَسْریٰ بِعَبْدِہٖ “ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے خواب یا صرف روحانی سیر کی تعبیر ان الفاظ سے کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی، اس کے علاوہ مضمون کو ” سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَیٰ “ کے الفاظ سے شروع کیا گیا ہے جس سے صاف معلوم ہوا کہ کسی بہت ہی غیر معمولی قسم کے اور محیر العقول واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے، ھالان کہ ایسے خواب تو ہم آپ بھی دیکھ سکتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں، اور جس کو روحانی سیر کہا جاتا ہے وہ بھی خواب سے ملتی جلتی ایک کیفیت ہوتی ہے، الغرض ان دونوں میں سے کوئی بھی ایسی اہم اور غیر معمولی بات نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب پاک میں غیر معمولی انداز میں اور ” سُبْحَانَ الَّذِیْ “ کے شاندار عنوان سے بیان فرمائیں، جس شخص کو عربی زبان اور محاورات سے ذرا سی بھی واقفیت ہو وہ سمجھ سکتا ہے اس انداز اور اس اہتمام سے ایسے ہی واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے جو بہت غیر معمولی ہو اور لوگوں کی عقل میں آنا مشکل ہو، الغرض قرآن مجید کے خاص انداز بیان اور الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج حضور کا خواب نہیں تھا، بلکہ عالم بیداری کا واقعہ تھا، اور یہ صرف روحانی سیر اور روحانی مشاہدہ نہیں تھا، ہاں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ اس طرح کا سفر بھی نہیں تھا جس طرح کے سفر ہم اس دنیا میں کرتے ہیں۔ ہماری اس دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے، اس لئے اس کی حقیقت اور نوعیت کو ہم پوری طرف سمجھ نہیں سکتے، جس طرح خود نبوت اور وحی کا معاملہ ہے کہ ہمارا اس پر ایمان تو ہے لیکن ہم اس کی نوعیت اور حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے، میرا خیال ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت معاویہ ؓ وغیرہ بعض صحابہ کے متعلق روایات میں جو یہ مذکور ہے کہ وہ حضرات اسراء اور معراج کو ” خواب “ کا واقعہ کہتے تھے تو میرے خیال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو ہماری اس دنیا کے سفروں جیسا سفر نہیں مانتے تھے بلکہ اس کو دوسرے عالم کا ایک معاملہ سمجھتے تھے اور اس کو ” رؤیا “ سے تعبیر کرتے تھے، یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ اس کو حضور کا صرف ایک خواب سمجھتے ہوں، قرآن پاک نے اس کو جس غیر معمولی انداز میں بیان کیا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے عربی زبان و محاورات سے واقفیت رکھنے والا کوئی آدمی بھی اس کو ” خواب کی بات “ نہیں کہہ سکتا، پھر صحیح روایات میں یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے معراج کا واقعہ لوگوں کے سامنے بیان کیا تو ابو جہل اور دیگر کفار نے اس پر خوب مذاق اڑایا اور اس واقعہ کو معاذ اللہ حضور کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور پروپیگنڈہ کیا کہ یہ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو بالکل ناممکن ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی آدمی ایک رات میں اتنا طویل سفر کرکے واپس آجائے، تو اگر صرف خواب کی بات ہوتی تو اس میں کسی کیلئے بھی تعجب اور اعتراض کا موقع نہ ہوتا، الغرض ابوجہل وغیرہ نے معراج کے بارے میں جو شور و غوغا مچایا اور اس سلسلہ میں حضور کے خلاف جس طرح کا پروپیگنڈہ کیا وہ بھی اس کی واضح دلیل ہے کہ حضور نے معراج کے واقعہ کو خراب کے طور پر یا صرف روحانی سیر کے طور پر بیان نہیں فرمایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ایک غیر معمولی انعام اور معجزہ کے طور پر بیان فرمایا تھا جو ان کے نزدیک ناممکن اور خلاف عقل تھا اور معجزہ کی شان یہی ہوتی ہے، ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی صحابی یا تابعی نے اسراء اور معراج کو حضور کے دوسرے خوابوں کی طرح صرف ایک خواب قرار دیا ہو، اس لئے قریب قریب یقین کے ساتھ میرا یہ خیال ہے کہ جن بعض صحابہ یا تابعین سے یہ مروی ہے کہ انہوں نے اسراء اور معراج کو ” رؤیا “ کہا اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس طرح کا سفر نہیں تھا جس طرح کے سفر ہم اپنی اس دنیا میں مختلف قسم کی سواریوں پر کرتے ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے عالم کا معاملہ تھا جس کی کوئی مثال اس دنیا کے ہمارے حالات اور واردات میں نہیں مل سکتی، اسی کو ان بزرگوں نے ” رؤیا “ کے لفظ سے تعبیر کردیا ہے۔ مرحوم حضرت علامہ انور شاہ صاحب کی رائے گرامی : علامہ سید محمد انورشاہ کشمیری قدس سرہ جنہوں نے قدیم آسمانی کتابوں کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس مقصد کیلئے عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقفیت حاصل کی تھی، فرماتے تھے کہ انبیاء سابقین کے صحیفوں میں انبیاء (علیہ السلام) کے خاص واردات و معاملات کو بکثرت ” رؤیا “ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے مراد وہ نہیں ہوتا جس کو ہم لوگ ” خواب “ کہتے ہیں، اور اسی سورة بنی اسرائیل میں ثند رکوع کے بعد ” رؤیا “ کا جو لفظ آیا ہے ” وَم۔ اجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنکَھَا اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ الخ تو بظاہر اس واقعہ اسراء اور معراج ہی کو اس آیت میں ” رؤیا “ کہا گیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے ” رؤیا عین اریھا رسول اللہ ﷺ میرے نزدیک یہ بالکل وہی بات ہے جو ہمارے استاذ (رح) تعالیٰ فرماتے تھے، پس جن صحابہ یا تابعین نے معراج کو ” رؤیا “ کہا ہے اس کا مطلب یہی سمجھنا چاہیے !۔ اسراء اور معراج کے بارے میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اب سے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس پہلے جبکہ ہوائی جہاز اور راکٹ جیسی تیز رفتار کوئی چیز ایجاد نہیں ہوئی تھی ایک رات بلکہ اس کے بھی تھوڑے سے حصہ میں اتنا طویل سفر کیسے ہوگیا ؟ لیکن یہ اور اس طرح کے سارے اشکالات کا یہ جواب کافی ہے کہ قرآن پاک نے اس کو رسول اللہ ﷺ کا فعل نہیں بلکہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ کا فعل بتلایا ہے اور اس کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں، اس کے حکم اور اس کی قدرت سے فرشتے ایک آن میں آسمان سے زمین پر اور زمین سے آسمان پر آتے اور جاتے ہیں، بس اسی قادر مطلق نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد ﷺ کو یہ سفر اس طرح کرایا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ یہ سفر ایک خاص معجزہ تھا اور معجزہ تو وہی ہوتا ہے جو اس عالم اسباب کے لحاظ سے عام عقلوں کیلئے ناقابل فہم ہو، اور ہر معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اگرچہ اس کے نبی و رسول کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے، اسی لئے اس آیت میں اسراء کو اللہ تعالیٰ کا فعل قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا، اَسْریٰ بِعَبْدِہٖ ۔ معجزہ کے بارے میں ہمارے عقائد کی کتابوں میں بھی بنیادی عقیدہ کے طور پر یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو پیغمبر کی تصدیق کیلئے اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح کرامت کے بارے میں عقائد کی کتابوں میں صاف صاف لکھا ہے کہ وہ ولی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو کسی متقی اور صالح بندہ کی عند اللہ مقبولیت ظاہر کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے، اسی لئے معجزہ اور کرامت نبی یا ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں ظاہر کریں اور دکھائیں بلکہ اللہ ہی کے اختیار میں ہوتی ہے، قرآن پاک میں جا بجا بیان فرمایا گیا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کے منکرین نے ان سے جب معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ معجزات ہمارے اختیار کی چیز نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ” اِنَّمَا الْآیاتُ عنْدَ اللہ “ بہرحال معراج کا واقعہ بھی ایک عظیم معجزہ ہی تھا اور جو کچھ ہوا براہ راست اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوا، اس لئے اس طرح کے سوال اور اشکال کی گنجائش ہی نہیں۔ جن امتوں اور گروہوں نے اس بات کو ذہن میں نہیں رکھا اور معجزوں اور کرامتوں کو خود نبیوں اور ولیوں کا فعل اور تصرف سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے، عیسائیوں میں بھی شرک یہیں سے آیا، افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے بھی اس معاملہ میں گمراہ ہوئے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہم کو اور آپ کو اس سے محفوظ رکھا ہے، اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْر۔ واقعۂ معراج سے متعلق ایک غیر مسلم کی شہادت : تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حافظ ابو نعیم اصبہانی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں محمد بن عمر واقدی کی سند سے بروایت محمد بن کعب قرظی یہ واقعہ نقل کیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے شام روم قیصر کے پاس اپنا نامۂ مبارک دے کر حضرت وحیہ بن خلیفہ ؓ کو بھیجا، شاہ روم ہرقل نے نامۂ مبارک پڑھنے کے بعد آنحضرت ﷺ کے حالات کی تحقیق کرنے کیلئے عرب کے ان لوگوں کو جمع کیا جو اس وقت ان کے ملک میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے، شاہی حکم کے مطابق ابو سفیان بن حرب اور ان کے رفقاء جو ملک شام میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے تھے وہ حاضر کئے گئے شاہ ہرقل نے ان سے وہ سوالات کئے جن کی تفصیل بخاری و مسلم میں موجود ہے، ابوسفیان کی دلی خواہش یہ تھی کہ وہ اس موقع پر آپ ﷺ کے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کریں جن سے آپ کی حقارت اور بےتوقیری ظاہر ہو، ابو سفیان کا بیان ہے کہ مجھے اس ارادہ سے کوئی چیز اس کے سوا مانع نہیں تھی کہ مبادا میری زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہوجائے اور میں بادشاہ کی نظروں میں گر جاؤں اور میرے ساتھی بھی ہمیشہ مجھے جھوٹا ہونے کا طعنہ دیا کریں، البتہ مجھے اس وقت خیال آیا کہ بادشاہ کے سامنے واقعۂ معراج بیان کروں جس کا جھوٹ ہونا بادشاہ خود سمجھ لے گا تو میں نے کہا میں اس کا ایک واقعہ آپ سے بیان کرتا ہوں جس سے آپ کو خود معلوم ہوجائیگا کہ وہ جھوٹ ہے ہرقل نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے ؟ ابو سفیان نے کہا اس مدعی نبوت کا کہنا یہ ہے کہ وہ ایک رات میں مکہ مکرمہ سے نکلے اور آپ کی اس مسجد بیت المقدس میں پہنچے اور اسی رات میں صبح سے پہلے ہمارے پاس مکہ مکرمہ میں پہنچ گئے ایلیا (بیت المقدس) کا سب سے بڑا عالم اس وقت شاہ روم کے پاس موجود تھا، اس نے کہا کہ میں اس رات سے واقف ہوں، شاہ روم اس کی طرف متوجہ ہوا اور معلوم کیا آپ کو اس کا علم کیسے ہوا ؟ اس نے عرض کیا کہ میری عادت تھی کہ رات کو اس وقت تک سوتا نہیں تھا کہ جبتک بیت المقدس کے تمام دروازے بند نہ کردوں اس رات میں نے حسب عادت تمام دروازے بند کر دئیے، مگر کسی پہاڑ کو ہلا رہے ہیں میں نے عاجز ہو کر کاریگروں کو بلایا، انہوں نے دیکھ کر اس دروازہ پر عمارت کا وزن پڑگیا اب صبح سے پہلے اس کے بند ہونے کی کوئی صورت نہیں، ہم صبح کو دیکھیں گے، کہ کیا کیا جائے ؟ میں مجبور ہو کر لوٹ آیا اور اس دروازہ کے دونوں کو اڑ اسی طرح کھلے رہے، صبح ہوتے ہی میں اس دروازہ پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مسجد کے دروازہ کے پاس ایک پتھر کی چٹان میں سوراخ کیا ہوا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی جانور باندھا گیا ہے اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج اس دروازہ کو اللہ نے شاید اسی لئے بند ہونے سے روکا ہے کہ کوئی نبی یہاں آنیوالے تھے۔ بنی اسرائیل کی ایک سرگزشت : میں نے عرض کیا تھا کہ اسراء اور معراج کے معجزانہ سفر کا ذکر اس سورت کی صرف پہلی ایک آیت میں کیا گیا ہے، آگے دوسری آیت سے دوسرا مضمون شروع ہے جس کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، اس مضمون کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کیلئے کتاب ہدایت (یعنی تورات) نازل کی تھی تو جب تک انہوں نے ہماری اس ہدایت کی پیروی کی اور نیکی اور فرمانبرداری کے راستے کتاب ہدایت (یعنی تورات) نازل کی تھی تو جب تک انہوں نے ہماری اس ہدایت کی پیروی کی اور نیکی اور فرمانبرداری کے راستے پر چلتے رہے وہ دنیا میں بھی عزت اور اقبال کے ساتھ رہے، اور جب انہوں نے اطاعت کے بجائے نافرمانی اور بندگی و سرافگندگی کے بجائے سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو ان پر ان کے بدترین دشمنوں کو مسلط کردیا گیا جنہوں نے ان کو بہت ذلیل و خوار کیا اور بالکل تباہ و برباد کر ڈالا، اور ایہ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ہوا اور اس کے باوجود ہوا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اس کے بارے میں اسی کتاب ہدایت میں کھلی آگاہی دی تھی، آخر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی یہ سزا تو ان کو دنیا میں دی گئی، اور آخرت میں نہ ماننے والوں کیلئے جہنم کا عذاب ہے، اللہ کی پناہ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ” وَاٰتَیْنَا مُوْسِی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ھُدًی لِّبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ، یعنی ہم نے اپنے بندے اور پیغمبر موسیٰ کو کتاب یعنی تورات دی تھی اور اس کو ہم نے بنی اسرائیل کیلئے اپنا ہدایت نامہ قرار دیا تھا اور اس میں خاص ہدایت یہ دی گئی تھی کہ میرے سوا کسی کو کو رساز نہ ٹھہراؤ، صرف مجھ کو ہی کارساز اور مختار کل مانو اور میرے ہی ساتھ عبادت و بندگی کا وہ معاملہ کرو جو کسی کارسار ہستی کے ساتھ ہونا چاہیے، اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً “ کا یہی مطلب ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے ” ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْح اِنَّہٗ کاَنَ عَبْدًا شَکُوْرًا “ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ سورة ھود میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے، نوح (علیہ السلام) نے سینکڑوں سال تبلیغ کی اور اس کی کوشش کی کہ ان کی قوم کفر و شرک کا راستہ چھوڑ کر ایمان اور عمل صالح والی زندگی اختیار کرلے، لیکن قوم کے بہت بڑے حصہ نے آپ کی بات بہیں مانی، بہت تھوڑے لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلیا، آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہلاکت خیز طوفان کی شکل میں خدا کا عذاب آیا اور وہ سب لوگ ہلاک و برباد کر دئیے گئے جنہوں نے نوح (علیہ السلام) کی ہدایت کے مقابلہ میں انکار اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تھا، اور جن تھوڑے سے بندوں نے آپ کی ہدایت کو قبول کیا تھا وہ خدا کے حکم سے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی کشتی پر سوار ہو کر اس عذاب سے بچ گئے، انہی میں سے کچھ لوگوں کی نسل سے ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، تو اس آیت (ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْح) میں اس قدیم تاریخی واقعہ کو یاد دلا کر بنی اسرائیل سے فرمایا گیا ہے کہ تم ہمارے ان بندوں کی نسل ہو جن کو ہم نے ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے اپنے پیغمبر نوح کے ساتھ جو ہمارے بڑے شکر گزار بندے تھے، ان کی کشتی پر اپنے حکم سے سوار کرا کے طوفان کے عذاب سے بچا لیا تھا، تو اگر اپنے آباء و اجداد کی طرح تم نے بھی ہماری نازل کی ہوئی ہدایت کی پیروی اور ایمان اور اعمال صالحہ والی زندگی اپنائی تو تم پر بھی ہمارا ایسا ہی فضل و کرم ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اگر تم نے نہ ماننے کا اور سرکشی کا وہ رویہ اختیار کیا جو قوم نوح کی اکثریت نے اختیار کیا تھا تو تم بھی خدا کے عذاب اور اس کی مار سے نہ بچ سکو گے، خدا کا قانون بےلاگ ہے، کسی سے اس کی رشتہ داری نہیں ہے۔ آگے کی آیتوں میں انہی بنی اسرائیل کے بارے میں جو بیان فرمایا گیا ہے وہ بڑا ہی سبق آموز بلکہ لرزہ خیز ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے سبق لینے کی توفیق دے، جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے دراصل ہماری یعنی امت محمدیہ ﷺ کی تنبیہ اور سبق آموزی کیلئے بیان کیا جا رہا ہے، ارشاد ہے۔ ” وقضینا الی بنی اسرائیل۔۔۔۔۔۔ للکفرین حصیرا “ یعنی ہم نے اس کتاب یعنی تورات میں بنی اسرائیل کو آگاہی دے دی تھی کہ یہ ہونے والا ہے کہ تم اپنی بداعمالیوں اور شیطانی حرکتوں سے علاقہ میں دو دفعہ فساد برپا کرو گے اور خباثت پھیلاؤ گے اور خدا کی بندگی اور فرمانبرداری کا راستہ چھوڑ کر سرکشی کا راستہ اختیار کرو گے، قرآن پاک میں یہاں صراحت کے ساتھ صرف اتنی ہی آگاہی کا ذکر فرمایا گیا لیکن جو لوگ قرآن مجید کے طرز بیان سے کچھ آشنا ہیں وہ سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اسی میں یہ آگاہی بھی مضمر ہے کہ جب تم فساد و بدعملی اور سرکشی کا راستہ اختیار کرو گے تو ہماری طرف سے تم پر عذاب کا تازیانہ پڑے گا، آگے کی آیتوں میں بنی اسرائیل کے فساد کے ساتھ ان پر خداوندی عذاب کے تازیانوں کے پڑنے کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس سے بھی یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ فساد اور سرکشی کی آگاہی کے ساتھ خداوندی سزا اور عذاب کی آگاہی بھی دی گے گئی تھی، اور ” کان وعداً مفعولاً “ (اور یہ پورا ہو کر رہنے والا وعدہ تھا) کے الفاظ سے تو یہ بات گویا صراحت ہی کے ساتھ معلوم ہوجاتی ہے کہ عذاب کی آگاہی بھی ساتھ ہی ساتھ دی گئی تھی۔ پیشین گوئی نہیں آگاہی : یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر اور قابل لحاظ ہے کہ بنی اسرائیل کو دی جانے والی جس آگاہی کا یہاں قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ” پیشین گوئی “ نہیں تھی، بلکہ بنی اسرائیل کیلئے اہم تنبیہ اور آگاہی تھی، اس کو بالکل اسی طرح کی آگاہی سمجھنا چاہیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام اور امت کو بہت سے فتنوں کے بارے میں حدیثوں میں آگاہی دی ہے، حدیث کی کتابوں میں ایسی پچاسوں حدیثیں ہیں جن کو محدثین نے اپنی مرتب کی ہوئی کتابوں میں ” کتاب الفتن “ میں درج کیا ہے، تو حضور ﷺ کے ان ارشادات کا مقصد نجومیوں میں ملوث ہونے سے بچائیں، الغرض تورات میں بنی اسرائیل کو جو آگاہی دی گئی تھی اور جس کا ذکر اس آیت میں بھی کیا گیا ہے وہ اسی طرح کی تھی۔ پہلی آگہی کا ظہور : آگے کی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل میں پہلی دفعہ فساد آیا جس کے بارے میں ان کو آگاہی دی جا چکی تھی اور انہوں نے ہماری ہدایت اور آگاہی کو پس پشت ڈال کر شیطنت اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو ہم نے ایسے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جو ” اُوْلِی بَأس شَدِیْدٍ “ یعنی نہایت خوفناک اور بڑے جلاد تھے، وہ ان بنی اسرائیل کی بستیوں میں اور ان کے گھروں میں گھس گئے اور بالکل تباہ کر ڈالا، فرمایا گیا، فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اَوْلٰھُمَا بَعَثّنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَأسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلَالَ الدّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلا “ بہت سے مفسرین نے جن کی بنی اسرائیل کی تاریخ پر اچھی نظر ہے، یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سے بابل کے بادشاہ بخت نصر کا حملہ مراد ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً چھ سو سال پہلے بنی اسرائیل کی بستیوں پر ہوا تھا، اس نے بنی اسرائیل کو بری طرح تباہ و برباد کیا تھا، ان کی بہت بڑی تعداد قتل ہوئی اور بہت بڑی تعداد میں قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا اور ان کی بستیاں بالکل اجاڑ دی گئی۔ آگے بیان فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک مدت کے بعد اللہ نے ان پر رحم فرمایا ان کی مدد فرمائی اور خدا کی اس مدد نے پانسہ پلٹ دیا، بنی اسرائیل کو غلبہ نصیب ہوا، پھر ان کے مال و اولاد میں بھی برکت ہوئی اور ان کا ایک نیا دور شروع ہوا، ارشاد ہے، ” ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ وَاَمْدَدْنَاکُمْ بِأمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا۔ یہاں قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی توبہ وانابت اور رجوع الی اللہ کا بظاہر کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا لیکن تورات میں اور بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس کا ذکر ہے اور قرآن مجید کے خاص طرز بیان کے مطابق یہاں اس کو مضمر سمجھنا چاہیے، آیت کا مطلب یہی ہے کہ ” بُخت نصر “ کے لشکر کے ہاتھوں پامال اور تباہ و برباد ہونے کے بعد ان میں انابت پیدا ہوئی، جیسا کہ عام طور سے ہوا کرتی ہے۔ ” جب دیارنج بتوں نے تو خدا یاد آیا “۔ بابل میں جب وہ قیدیوں والی ذلت و خواری کی زندگی گزار رہے تھے، ان میں انابت پیدا ہوئی، انہوں نے نافرمانی کی زندگی سے توبہ کی اور فرمانبرداری والی زندگی کا خدا سے عہد کیا تو اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل ہوا اور اس کی خاص مدد سے ان کو دشمنوں پر غلبہ بھی نصیب ہوگیا اور ان کی نسل اور دولت میں بھی خدا تعالیٰ نے خوب اضافہ کیا، اور بنی اسرائیل پھر سے ایک خوش حال اور طاقتور قوم بن گئے۔ آگے فرمایا گیا ہے ” اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا “ یعنی ہم نے ان بنی اسرائیل کے اس دوسرے دور میں پھر ان کو جتا دیا تھا اور آگاہ کردیا تھا کہ دیکھو آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر تمہارا رویہ اچھا رہا جیسا کتاب و پیغمبر والی امت کا ہونا چاہیے تو تم کو ہماری طرف سے اس کا بہترین صلہ ملتا رہے گا، لیکن اگر تم نے بدعملی اور شرارت کی راہ اختیار کی تو سابق کی طرح اس کا برا نتیجہ بھی تمہیں بھگتنا ہوگا، جزا و سزا کا ہمارا یہ قانون اٹل ہے، ” اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا “۔ دوسری بار کی تباہی : آگے فرمایا گیا ہے ” فَاِذَا وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ “ الخ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کے بعد جس کا ذکر اوپر کی آیت میں کیا گیا ہے، بنی اسرائیل نے پھر خدا کو اور اس کی ہدایت کو بھلا دیا اور نفس پرستی اور سرکشی کا وہ راستہ پھر اختیار کرلیا جس کے بارے میں ان کو آگاہی دی جا چکی تھی ”(لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا) “ تو خدا کی طرف سے ان پر ان کے دوسرے نہایت خراب اور خونخوار دشمن مسلط کر دئیے گئے، وہ خدا کا عذاب بن کر ان پر نازل ہوئے، انہوں نے ان کو ایسی مار دی کی صورتیں تک بگاڑ دیں اور جس طرح بخت نصر کے لشکر نے ان کے دینی اور قومی مرکز اور ان کی عزت اور عظمت کے نشان بیت المقدس کو تباہ و برباد کیا تھا اس کے نئے حملہ آور دشمنوں نے بھی ایسا ہی کیا اور اس کے علاوہ بھی جہاں تک قابو پایا سب برباد کردیا، اور یہ خدائے ذوالجلال کے عذاب کے طور پر ہوا، خدا نے بنی اسرائیل کی شرارت اور سرکشی کی سزا دینے ہی کے لئے ان دشمنوں کو ان پر اس طرح مسلط کیا، اس کی طرف سے پہلے ہی جتا دیا گیا تھا ” وَاِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا “ (کہ اگر تم نے بد کرداری اختیار کی تو تم کو اس کی سزا ضرور بھگتی ہوگی) اکثر واقف مفسرین نے طیطوس رومی کے حملہ (70 ء) کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ (واللہ اعلم) ۔ آگے فرمایا گیا ہے، عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا “ یعنی بنی اسرائیل کی اس دوسری دفعہ کی بربادی کے بعد بھی ان کو اس کی امید دلائی گئی تھی کہ اگر اب بھی معصیت کوشی اور سرکشی کا راستہ چھوڑ کے نیکی اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرلو گے تو تمہارا پروردگار پھر تم کو اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے گا اور تم کو پھر ایک نئی زندگی عطا کردی جائے گی، اور اگر اس کے برخلاف تم نے پھر شرارت اور شیطنت کا راستہ اختیار کیا تو ہم پھر وہی کریں گے جو پہلے ہم نے کیا تھا، یعنی جس طرح پہلے تم پر ہمارے عذاب کے کوڑے برسے تھے اسی طرح پھر برسیں گے۔ (وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا) ۔ اور پھر آخرت کی سزا : آگے ارشاد فرمایا گیا ہے ” وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا “ بنی اسرائیل سے متعلق جو سلسلہ کلام سورت کی دوسری آیت سے شروع ہوا تھا وہ یہاں ختم ہوگیا، یہ اس سلسلہ کی آخری آیت ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر اس بار بار کی تنیہ اور ہمارے قہر و عذاب کے بار بار کے تجربے کے بعد بھی تم نے ہدایت کی پیروی اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار نہیں کیا اور کفر و طغیان ہی کی راہ پر چلتے رہے تو ایسے مجرموں کیلئے دنیوی عذاب کے ان تازیانوں کے علاوہ آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں جہنم کا شدید عذاب ہے اور پھر جہنم کا جیل خانہ ہی ان کا دائمی ٹھکانا ہے، وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا۔ ان آیتوں کا سبق : یہاں ہمارے آپ کے لئے سوچنے سمجھنے کی خاص بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ سرگزشت ہم کو یعنی امت محمدیہ ﷺ کو کیوں سنائی گئی اور اس کو قرآن مجید میں کیوں شامل کیا گیا ؟ قرآن پاک نہ تو تاریخ کی کتاب ہے اور نہ قصہ کہانیوں کی، وہ تو کتاب ہدایت ہے، اس میں بنی اسرائیل کے اور دوسری قوموں اور ان کے نبیوں رسولوں کے جو واقعات بیان کئے گئے ہیں، سب ہمارے ہدایت اور سبق آموزی کیلئے بیان کئے گئے ہیں، ان آیتوں کا کھلا سبق ہمیں اور آپ کو اور حضور ﷺ کی ساری امت کو یہ ہے کہ کسی قوم، کسی نسل اور کسی امت سے اللہ تعالیٰ کی رشتے داری نہیں ہے، اس کا قانون بےلاگ ہے، بنی اسرائیل حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہم السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی اولاد تھے، اور یہ ایسی نسل تھی جس میں اللہ کے ہزاروں پیغمبر آئے، لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ایسے بےلاگ ہے کہ جب تک یہ سیدھے چلیں اور ان کی زندگی ایمان اور عمل صالح والی زندگی رہی ان پر نعمتوں کی بارشیں ہوتی رہیں اور ان کو عزت اور سربلندی نصیب رہی، لیکن جب انہوں نے خدا اور اس کے پیغمبروں کا بتایا ہوا راستہ چھوڑ کر نفس پرستی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے، اور پھر نہایت خبیث قسم کے کفار ان پر مسلط کر دئیے گئے جنہوں نے ان کو بری طرح تہس نہس کیا اور ان کے قبلے بیت المقدس تک کو برباد کر ڈالا، اور یہ سب اللہ کے حکم سے اور اس کی طرف سے ہوا۔ امت محمدیہ ﷺ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی ہوا ہے، جب تک اس کی عام زندگی ایمان و عمل صالح اور تقوے والی رہی روم وفارس جیسی عظیم الشان اور نہایت طاقتور حکومتوں کے مقابلہ میں ان کو غلبہ حاصل رہا اور ” اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ “ کا ظہور ہوتا رہا، لیکن جب ایمان اور تقویٰ کے بجائے امت میں نفاق اور فسق و فجور کا غلبہ ہوگیا تو ان پر تاتاریوں جیسی وحشی اور خونخوار قوم مسلط کردی گئی اور پھر وہی ہوا جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا تھا، ” فَجَاسُوْا خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلاً “ اس کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں میں اللہ تعالیٰ کے اس بےلاگ قانون کا ظہور ہوتا رہا ہے، اور ہم اور آپ خود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اس کا تجربہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو سبق لینے کی توفیق دے اور ہم پر رحم فرمائے، ہمارے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا اور قرآن مجید کا پیغام یہی ہے، ” عَسٰی رَبُّکُمْ أنْ یَّرَحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدنَا “۔ (درس القرآن)
Top