بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام، یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ ، یعنی بیت المقدس تک لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں، حقیقت میں وہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
عظمت نبوی اور مقام عبد تشریح : یہ اس مشہور معجزہ کی نشاندہی کی گئی ہے جو معراج کے نام سے مشہو رہے۔ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا جبکہ آپ کو تبلیغ کرتے ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے آپ کی عمر اس وقت 53 سال تھی تاریخ میں اختلاف ہے مگر معروف یہی ہے کہ 27 رجب کو یہ واقعہ ہوا۔ اس طرح کہ ایک رات آپ ام ہانی ؅کے گھر سو رہے تھے یا بیت اللہ میں تھے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئے وہاں آپ ﷺ نے انبیاء (علیہم السلام) کو نماز پڑھائی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا، یعنی کائنات کی بلندیوں کی طرف لے چلے پھر مختلف آسمانی طبقات میں آپ کی ملاقات کئی انبیاء سے ہوئی، آخر کار رب جلیل سے ملاقات کے لیے مزید بلندیوں کی طرف پرواز کی جہاں رب کے حضور حاضر ہوئے اور بہت سی ہدایات کے علاوہ پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا۔ نماز مسلمان کے لیے تحفہ ہی ہے کیونکہ یہ ہر مسلمان کی معراج کہلاتی ہے۔ یہی ایک ذریعہ ہے رب سے ملاقات کرنے اور اپنی حاجات پیش کرنے کا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا۔ بہرحال وہاں سے آپ بیت المقدس اور پھر مسجد حرام تشریف لے آئے، پھر بہت سی روایات سے ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے جنت و وزخ کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تو صرف یہی کہا کہ ” ہم آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئے۔ “ مگر اس کی تفصیلات میں 25 احادیث مستند آچکی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو معراج جسمانی ہوا نہ کہ خواب میں یا روحانی طور پر آپ ﷺ کو سیر کرائی گئی۔ اسی طرح مقبول خدا متقی، نیک اور اہل معرفت (اللہ کو پہنچاننے والے) لوگ قرآن وسنت کے مطابق اعمال کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ فرائض کی پابندی کے ساتھ وہ نوافل کے ذریعے اللہ کی ولایت کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔ ایسا شخص روحانی طور پر بہت بلند، پاکیزہ اور ہلکا ہوجاتا ہے اس بلندی کو حاصل کرنے کے لیے گناہوں کی گندگی سے بچنا اور نیکیوں کی طرف بڑھنا بہت ضروری ہے۔ حسد، بغض، نفرت، شرارت، بدگمانی، خباثت اور غصہ یہ سب اعمال انسان کو انتہائی پستیوں میں لے جاتے ہیں۔ ایسا شخص نہ صرف یہ کہ اللہ سے دور رہتا ہے بلکہ خود اپنے لیے بھی بےسکونی اور پریشانی کا باعث بنا رہتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ان تمام بدعملیوں سے دور رہ کر اللہ کی عبادت میں گم ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی نافرمانی بالکل نہیں کرتے۔ رب سے پیار کی یہ انتہا ہے جو عام بہترین متقی اور نیک لوگوں کو حاصل ہوجاتی ہے تو نبی اکرم ﷺ نبیوں کے سردار خاتم النبیین حامل قرآن اور شفیع المذنبین بھلا ان کو معراج کی سعادت جسمانی طور پر حاصل ہوجانا کوئی ناممکن بات ہے۔ اور شروع آیت ” سبحٰن الذی “ کا مطلب ہے الہ العٰلمین قادرمطلق کہ جو کن (ہوجا) سے دنیا بنا دے بھلا اس کے لیے اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جانا اور پھر عالم بالا کی سیر کروانا کیسے مشکل بات ہوسکتی ہے۔ یہ پہلا ثبوت ہے۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اللہ نے آپ کے لیے عبد (بندہ) کا لفظ استعمال کیا اور عبد جسم اور روح کا مجموعہ ہوتا ہے۔ تیسرا ثبوت یہ ہے کہ جب آپ نے اپنے معراج کے واقعہ کا ذکر کرنا چاہا تو ام ہانی ﷺ نے آپ کو منع کیا کہ لوگ آپ کے اور بھی مخالف ہوجائیں گے۔ اگر یہ خواب ہوتا تو وہ آپ کو ہرگز منع نہ کرتیں کہ خواب تو انسان دیکھتا ہی رہتا ہے۔ مگر معراج کا واقعہ اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بڑے واضح الفاظ میں کیا گیا ہے۔ مسجد الحرام اور مسجد اقصیٰ کا فاصلہ اس وقت کے لحاظ سے چالیس راتوں کا سفر تھا جو اللہ نے اپنی قدرت سے رات کے کچھ حصہ میں طے کروا دیا۔ مسجد اقصیٰ کو بابرکت اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ علاقہ قدرتی نہروں، شادابی اور پھلوں کی کثرت کے لیے مشہور ہے اور دوسری بات یہ کہ یہاں بڑے بڑے انبیاء مدفون (دفن) ہیں۔ بہر حال معراج کی صداقت میں ملاحظہ ہو : ” واقعہ اسراء کی حدیث پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے صرف ملحدو زندیق لوگوں نے اس کو نہیں مانا۔ “ (ابن کثیر) آج کل تو معراج کے واقعہ کو مان لینا یوں بھی آسان ہوگیا ہے کہ اگر انسان نامکمن کو ممکن بنا کر چاند پر اتر سکتا ہے۔ خلا میں چہل قدمی کرسکتا ہے تو اللہ جل شانہ، کے لیے یہ کیونکر مشکل تھا کہ اپنے پیارے نبی، محسن انسانیت، ہادی اعظم ﷺ کو اپنے پاس بلائے مادی جسم کے ساتھ اور سیر کرائے۔ یوں ان کی عزت واکرام میں اضافہ کرے اور پوری انسانی برادری کو بہترین مخلوقات کا درجہ عطا کرے۔ اور نماز جیسا مبارک تحفہ عطا کرے۔ ہم اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کی امت کے ہر فرد، مرد، عورت، بچے، بوڑھے، جوان کو پکا اور سچا نمازی بنا دے اور ہمیں نماز کی تمام برکات سے مالا مال کر دے کیونکہ نماز ہی جنت کی کنجی ہے۔ نماز ہی اللہ کی نصرت کا ذریعہ، روحانی قوت کا سرچشمہ، برائیوں سے بچانے کا ہتھیار، اتحاد اور اصلاح کا ذریعہ، تنظیم کا وسیلہ، سکون قلب کا باعث غرض دنیا و آخرت میں ہر طرح کی کامیابیاں حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ اسی لیے نماز کو بہترین تحفہ کہا گیا ہے جو آپ ﷺ معراج سے ہمارے لیے لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح دیکھنے اور سننے والا ہے اسی لیے اس نے بندوں کی بہتری کو دیکھتے ہوئے ان پر نماز پانچ وقت کی فرض کردی جو اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اس آیت میں جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے مسجد اقصیٰ اور ملک شام کو دینی اور دنیاوی برکات سے اللہ نے مالامال کر رکھا ہے۔ دینی ایسے کہ وہ تمام گزرے ہوئے انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ تھا اور پھر ان تمام کا مسکن (رہنے کی جگہ) اور مدفن (دفن ہونے کی جگہ) بنا اور دنیوی یوں کہ اس میں بہترین چشمے، نہریں اور باغات ہیں۔ اور پھر چار مساجد کی حرمت یوں بیان کی گئی ہے۔ حدیث ہے۔ ” دجال ساری زمین میں پھرے گا مگر چار مسجدوں تک اس کی رسائی نہ ہوگی۔ (1) مسجد مدینہ (2) مسجد مکہ مکرمہ (3) مسجد اقصیٰ (4) مسجد طور (ازمسند احمد)
Top